ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں
ذرا دھوپ اس سل کو چھو لے میاں
یہی برف ہو جائے آب رواں
ہری گھاس جنگل نہیں چھوڑتی
ہوا شہر کی لاکھ ہو مہرباں
دھنی روئی صورت اڑے اعتبار
ردائے تعلق ہوئی دھجیاں
سمندر مرے یار پتھرا گیا
کہ ہیں ریت میں دفن بینائیاں