زنجیر سے جنوں کی خلش کم نہ ہو سکی

زنجیر سے جنوں کی خلش کم نہ ہو سکی
بھڑکی اگر یہ آنچ تو مدھم نہ ہو سکی


بدلے بہار لالہ و گل نے ہزار رنگ
لیکن جمال دوست کا عالم نہ ہو سکی


کیا کیا غبار اٹھائے نظر کے فساد نے
انسانیت کی لو کبھی مدھم نہ ہو سکی


ہم لاکھ بد مزہ ہوئے جام حیات سے
جینے کی پیاس تھی کہ کبھی کم نہ ہو سکی


جو جھک گئی جبیں ترے نقش قدم کی سمت
تا زیست پھر وہ اور کہیں خم نہ ہو سکی


مجھ سے نہ پوچھ اپنی ہی تیغ ادا سے پوچھ
کیوں تیری چشم لطف بھی مرہم نہ ہو سکی


کتنے رموز شوق ان آنکھوں میں رہ گئے
جن سے نگاہ دوست بھی محرم نہ ہو سکی


موج نسیم اپنی بہاریں لٹا گئی
لیکن خزاں کی مردہ دلی کم نہ ہو سکی


اللہ رے اشتیاق نگاہ امید کا
کھوئے ہوؤں کی یاد میں پر نم نہ ہو سکی


گل کاریٔ نظر ہو کہ رنگ جمال دوست
کچھ بات تھی کہ زیست جہنم نہ ہو سکی


ان کی جبیں پہ خیر سے اک رنگ آ گیا
میری وفا اگرچہ مسلم نہ ہو سکی


اپنے ہی گھر کی خیر منائی تمام عمر
ہم سے سرورؔ فکر دوعالم نہ ہو سکی