زن مرید شوہر کا شکوہ
ہے بجا حلقۂ ازدواج میں مشہور ہوں میں
تیرا بیرا ترا دھوبی تیرا مزدور ہوں میں
زن مریدی کا شرف پا کے بھی رنجور ہوں میں
قصۂ درد سناتا ہوں کہ مجبور ہوں میں
میری مخدومہ مرے غم کی حکایت سن لے
ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے
رشتہ داروں نے ترے جان مری کھائی ہے
فوج کی فوج مرے گھر میں اتر آئی ہے
کوئی ماموں کوئی خالو ہے کوئی بھائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
پالوں بچوں کو ترے یا ترے غم خواروں کو
ان ممولوں کو سنبھالوں کہ چڑی ماروں کو
تو ہی کہہ دے کہ ترا حسن نکھارا کس نے
اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے
رخ پہ پھیرا ترے سرخی کا پچارا کس نے
تیرے میک اپ کا کیا خرچ گوارہ کس نے
کون تیرے لیے درزی سے غرارہ لایا
واسطہ دے کے غریبی کا خدا را لایا
پھر بھی مجھ سے یہ گلہ ہے کہ کماتا کم ہوں
نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ہوں
لے کے شاپنگ کے لیے تجھ کو میں جاتا کم ہوں
اور 'پلازہ' میں تجھے فلم دکھاتا کم ہوں
کاش نوٹوں سے حکومت مری جیبیں بھر دے
مشکلیں شوہر مظلوم کی آساں کر دے
زچہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تو نے
ہر نئے سال نیا گل ہے کھلایا تو نے
اپنا شو روم مرے گھر کو بنایا تو نے
جس میں ہر رنگ کا ماڈل ہے سجایا تو نے
اس میں ہولو بھی ہے بھولو بھی ہے جوشیلا بھی
اس میں زلفی بھی ہے ننھا بھی رنگیلا بھی
کس قدر تجھ پہ گراں صبح کی بیداری ہے
اٹھ کے چولھے کی طرف جانا تجھے بھاری ہے
مجھ سے کب پیار ہے ہاں نیند تجھے پیاری ہے
تو ہی کہہ دے یہی انعام وفاداری ہے
میں وہ شوہر ہوں کہ خود آگ جلائی جس نے
لا کے بستر پہ تجھے چائے پلائی جس نے
ہنس کے بولوں جو پڑوسن سے تو جل جاتی ہے
کھولتی چائے کی مانند ابل جاتی ہے
حد اخلاق سے باہر بھی نکل جاتی ہے
موسم پنڈی کی مانند بدل جاتی ہے
جگ تو پھر جگ ہے صراحی بھی نہ چھوڑی تو نے
جب لڑی مجھ سے تو ہانڈی بھی ہے توڑی تو نے
کسی اسٹیج پہ آؤں تو چمک جاتا ہوں
تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ہوں
تو جو ہولے سے بھی کھانسے تو ٹھٹھک جاتا ہوں
گھور کے دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ہوں
پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں
تو ہے بے کار ترے پاس کوئی کار نہیں