زمستاں

سخت سفاک
خود میں سمٹ کر چٹختی ہوئی برف
اور منجمد جسم و جاں
رات
جذبوں کی قبروں پہ کتبے کے مانند اٹکی ہوئی
ہاتھ کھرچے ہوئے سانس اکھڑی ہوئی
لفظ
گویا سماعت کے پردے سے ٹکرا کے چپکے ہوئے
برف پر
چار و نا چار، پیروں کی جمتی ہوئی انگلیاں
ہڈیوں کی دراڑوں میں گھستی ہوا
خون تک راہ پانے کی کوشش میں
ٹوٹی فصیلوں پہ یلغار کرتی ہوئی
دل بقا کے لیے خود سے لڑتا ہوا
خون پیتا ہوا اور اگلتا ہوا
کیسا بحران ہے دم نکلتا نہیں
سرد موسم کسی طور ٹلتا نہیں
جس قدر ہو سکے
گرتے پیڑوں کی شاخیں جلاتے رہو
آگ بجھنے نہ دو