زمیں تھی سخت مجھے کوئی نقش پا نہ ملا
زمیں تھی سخت مجھے کوئی نقش پا نہ ملا
تری گلی سے جو نکلا تو راستہ نہ ملا
دعا تھی چیخ تھی یا احتجاج تھا کیا تھا
ہلے تھے ہونٹ مگر حرف مدعا نہ ملا
بدن کی قید سے چھوٹا تو لوگ پہچانے
تمام عمر کسی کو مرا پتا نہ ملا
میں چاہتا تھا کہ تیور بھی دیکھ لے میرے
غنیم جب بھی ملا مجھ سے غائبانہ ملا
نفس نفس کوئی مجھ کو پکارتا کیوں ہے
نظر کو جب کہ بصارت کا ذائقہ نہ ملا
یہ بزم شعر و ادب ہے کہ کوچۂ بدنام
یہاں تو جو بھی ملا ہے منافقانہ ملا
ملے ہیں یوں تو بہت تشنگی کے دشت ضیاؔ
کوئی بھی دشت مگر مثل کربلا نہ ملا