زمیں پہ رہ نہیں سکتے وہ آن بان کے ساتھ
زمیں پہ رہ نہیں سکتے وہ آن بان کے ساتھ
بدلتے رہتے ہیں جو رنگ آسمان کے ساتھ
تمام دن وہ اندھیروں سے لڑتے رہتے ہیں
جو لوگ صبح کو اٹھتے نہیں اذان کے ساتھ
وہ مجھ سے رکھتا ہے دوری ہزاروں میلوں کی
کھڑی ہے جھونپڑی جس کی مرے مکان کے ساتھ
ہمیں پڑھایا گیا ہے یہی تو مکتب میں
رویہ منفی نہ رکھنا کسی زبان کے ساتھ
امیروں ہی کے لیے مت بہا پسینے کو
اگا تو خوشۂ گندم بھی زعفران کے ساتھ
بکھیر دیتا کبھی کا مجھے اکیلا پن
نہ رہتا جڑ کے اگر اپنے خاندان کے ساتھ
یہ زخم شوق جو دل پر لگا ہے اے شیبانؔ
مہکتے رہنا ہمیشہ اسی نشان کے ساتھ