زمیں پہ مکتب آدم کا اک نصاب ہے عشق

زمیں پہ مکتب آدم کا اک نصاب ہے عشق
لکھی گئی جو ازل میں وہی کتاب ہے عشق


حدود ذات کے اندر بھی شور و شر اس کا
حدود ذات کے باہر بھی اضطراب ہے عشق


جنوں کی تہ سے جو ابھرے تو گوہر نایاب
ہوس کی موج پہ آئے تو اک حباب ہے عشق


کسی سوال کی صورت ہے کائنات تمام
اور اس سوال کا آسان سا جواب ہے عشق


سمیٹ لیں جو نگاہیں تو حسن لیلیٰ تک
بکھیر دیں جو فضا میں تو بے حساب ہے عشق


ورق ورق پہ ہے بکھرا مرے وجود کا رنگ
یہ کس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ہے عشق


فضائے لیلیٰ شب میں ہے روشنی اس کی
ضیاؔئے نخوت شیریں کا آفتاب ہے عشق