زمیں نے لفظ اگایا نہیں بہت دن سے

زمیں نے لفظ اگایا نہیں بہت دن سے
کچھ آسماں سے بھی آیا نہیں بہت دن سے


یہ شہر وہ ہے کہ کوئی خوشی تو کیا دیتا
کسی نے دل بھی دکھایا نہیں بہت دن سے


عجیب لوگ ہیں بس راستوں میں ملتے ہیں
کسی نے گھر ہی بلایا نہیں بہت دن سے


تجھے بھلانا تو ممکن نہیں مگر یوں ہی
ترا خیال ہی آیا نہیں بہت دن سے


نماز کیسے پڑھوں میں بغیر پاک ہوئے
کہ آنسوؤں میں نہایا نہیں بہت دن سے


ہم اپنی مملکت درد میں اکیلے ہیں
ہماری کوئی رعایا نہیں بہت دن سے


مفاہمت سی عجب ہو گئی ہے رات کے ساتھ
چراغ میں نے جلایا نہیں بہت دن سے