زمین عشق پہ اے ابر اعتبار برس
زمین عشق پہ اے ابر اعتبار برس
وصال یار کا بہہ جائے انتظار برس
شراب شوق کہیں مجھ کو کر نہ دے مدہوش
تری تری سے اتر جائے یہ خمار برس
مرے حبیب کو دے دوں وفا کا اک موتی
کھلا ہے دل کا صدف آ بس ایک بار برس
پئے نمود نہ گرمی ہے عشق کی نہ ہوا
درخت زیست کے ہیں خشک برگ و بار برس
کہیں نجات کا دریا نہ سوکھنے لگ جائے
چلا کرے مری کشتی کا کاروبار برس
زمین دل میں اگی ہے انا کی فصل نئی
تباہ کر دے دیا میں نے اختیار برس
کہیں انہیں نہ ہو خندہ لبی پہ وہم و گماں
دکھا دے بیکسی اے چشم بے قرار برس
وہ ایک پل جو ترے اشتیاق میں گزرا
اس ایک پل میں سمٹ آئے ہیں ہزار برس
ترے برسنے سے پانی ہے قلب دشمن کا
عمل یہ نیک ہے تمجیدؔ بار بار برس