زمانے میں محبت کی اگر بارش نہیں ہوتی
زمانے میں محبت کی اگر بارش نہیں ہوتی
کسی انسان کو انسان کی خواہش نہیں ہوتی
ہزاروں رنج و غم کیسے وہ اپنے دل میں رکھتے ہیں
کہ جن کے دل میں تھوڑی سی بھی گنجائش نہیں ہوتی
ہم اپنی جان دے کر دوستی کا حق نبھا دیتے
زمانے کی اگر اس میں کوئی سازش نہیں ہوتی
تمہارے پاؤں تو دو گام چل کر لڑکھڑاتے ہیں
ہمارے عزم محکم میں کبھی لغزش نہیں ہوتی
تمہاری ہی محبت کا صلہ ہے یہ غزل عارفؔ
لبوں کو شعر کہنے کی کبھی جنبش نہیں ہوتی