زخم تازہ تھا تو گہرائی کا اندازہ نہ تھا

زخم تازہ تھا تو گہرائی کا اندازہ نہ تھا
اب گماں ہوتا ہے اس کو چاہنا اچھا نہ تھا


میں کہ دست حال میں تھا حال سے بھی بے خبر
پشت پر ماضی کی یادیں سامنے فردا نہ تھا


وہ مری نس نس میں کیسے درد بن کر رہ گیا
میرے اس کے درمیاں ایسا کوئی رشتہ نہ تھا


چاند سا معصوم چہرہ آئنہ سا رو بہ رو
روح کی سرشاریاں تھیں جسم آلودہ نہ تھا


دیکھتے ہی دیکھتے یہ رت بھی کیا زردا گئی
سبز موسم تھا تو صحرا میں بھی سناٹا نہ تھا


جب کھلیں آنکھیں تو ہر پہچان روشن ہے شمیمؔ
میں نے یہ جانا کہ اس کو آج تک جانا نہ تھا