زخم ناسور کوئی ہونے سے

زخم ناسور کوئی ہونے سے
درد اگتا ہے درد بونے سے
وہ تھا مرکوز میرے مرکز پہ
اور ادھڑتا رہا میں کونے سے


چلو اب ہنس کے دیکھ لیتے ہیں
دل پگھلتے نہیں ہیں رونے سے


اسے ہم سود اب کہے یا زیاں
مل گیا خواب نیند کھونے سے


وہ اندھیروں میں ہی رہے آخر
بجھ گئے جو چراغ ڈھونے سے


دن میں بھی رات کا سماں ہوگا
جاگتے میں یوں سب کے سونے سے


میری مٹی ہے اب تلک کچی
گھل نہ جاؤں کہیں بھگونے سے


اب سمندر نپٹ اکیلا ہے
کیا ملا کشتیاں ڈبونے سے


میرے سائے سے یہ بظاہر ہے
نور حائل ہے میرے ہونے سے