زخم دل اپنا کبھی اس کو دکھا بھی دینا
زخم دل اپنا کبھی اس کو دکھا بھی دینا
اس کی سن لینا کبھی اس کو سنا بھی دینا
آنسوؤں اور شرابوں کی کہانی کب تک
مری غزلوں کو کوئی رنگ نیا بھی دینا
میں ہوں منزل کا طلب گار مگر راہنما
مجھ کو دو چار قدم راہ وفا بھی دینا
ترے احسان نہ ہرگز میں کبھی بھولوں گا
بھول جاؤں تو مجھے یاد دلا بھی دینا
وہ نعیمؔ آج نہ مانے گا مگر تم ہی کبھی
اس سے ملنا بھی اسے خود سے ملا بھی دینا