زخم دل کا خوں چکاں ایسا نہ تھا

زخم دل کا خوں چکاں ایسا نہ تھا
اب سے پہلے جاں ستاں ایسا نہ تھا


لرزہ بر اندام ہے قصر یقیں
آدمی صید گماں ایسا نہ تھا


پھلجھڑی سی چھوٹتی تھی رات دن
شہر جاں تیرہ نشاں ایسا نہ تھا


پھول جو تھے آرزو کے جل گئے
شعلہ شعلہ گلستاں ایسا نہ تھا


زیست کی رہ میں بلائیں تھیں مگر
میرے سر پر آسماں ایسا نہ تھا


شاخ گل تھی تتلیوں کے پر بھی تھے
گلشن دل بے اماں ایسا نہ تھا