زخم درکار ہیں سینے کے لیے

زخم درکار ہیں سینے کے لیے
کچھ نہ کچھ چاہیے جینے کے لیے


میکدہ تیرا سلامت ساقی
آ گئے تھے یوں ہی پینے کے لیے


گھٹ کے رہ جاتی ہے آواز کی لو
ہر نفس بوجھ ہے سینے کے لیے


زندگی کیا ہے یہ کس کو معلوم
لوگ بس جیتے ہیں جینے کے لیے


کوئی اندیشۂ طوفاں بھی نہیں
غم یہ کیا کم ہے سفینے کے لیے


میں ضیاؔ ہوں کوئی سقراط نہیں
زہر کیوں دیتے ہو پینے کے لیے