کیا زکوٰۃ کا اسلامی نظام جدید معاشی مسائل کا حل پیش کرتا ہے؟
زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے اور اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔اسلام انسان کے مال کمانے پر پابندی عائد نہیں کرتا البتہ درست اور غلط ، حلال اور حرام، ضروریات اور فضولیات جیسی تفصیلات بہرحال بیان کرتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں مال جمع کرکے، سینت سینت کر رکھنے کی بجائے انفاق کی ترغیبات ملتی ہیں جن سے دین و شریعت کا مقصود انسانیت کی فلاح و بہبود اور معاشرتی و معاشی مساوات ہے۔ مال خرچ کرنے کے دو درجات ہیں: ایک فرض اور ایک نفل۔ فرض انفاق کی ایک مد زکوٰۃ ہے جس کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام، طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہوجائیں اور رزق حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں۔
زکوٰۃ کے لغوی معنی پاکیزہ کرنا یا پروان چڑھانا اور نشوونما کرنے کے ہیں۔یہاں پاکیزگی سے مال کی پاکیزگی بھی ہے اور اپنے مال کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی صورت میں ملنے والی پاکیزگی ہے ۔جبکہ نشوونما سے مراد حق داروں پر مال خرچ کرکے اپنی دولت کو بڑھانا ہے ،جس سے مال میں برکت پیدا ہوتی ہے۔
اسلامی احکام کے مطابق معاشرے کے مال دار اور دولت مند افراد کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ رکھا گیا ہے۔اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
وَ فِيْ اَمْوَالِهِمْ حَقٌ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ (الذاريات: 19)
’’اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجتمندوں) کا حق مقرر تھا‘‘۔
زکوٰۃ معاشرے کی غربت سے پسے ہوئے نادار، یتیموں اور دیگر مصارف کے لئے خوشحالی اور ترقی کی ضامن ہے اور جب پورا معاشرہ اس غربت و افلاس اور تنگدستی سے نجات حاصل کرے گا تووہ معاشرہ ایک ترقی یافتہ اور ایک مثالی معاشرہ متصور ہوگا۔
حضرت حسن بصری ؒ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاةِ، وَدَاوُوْا أَمْرَاضَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَاسْتَقْبِلُوْا أَمْوَاجَ الْبَـلَاءِ بِالدُّعَاءِ وَالتَّضَرُّعِ. ( ابوداود فی السنن، کتاب: المراسيل)
’’اپنے مال و دولت کو زکوٰۃ کے ذریعے بچاؤ اور اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو اور مصیبت کی لہروں کا سامنا دعا اور گریہ و زاری کے ذریعے کرو۔ ‘‘
حضور اقدس ﷺ نے نماز ونظام زکوٰۃ و عشر کی اہمیت کے اظہارکے لئے اسلام کی شرائط بیعت میں بھی اسے داخل فرمایا۔ 5ھ میں وفد عبد القیس نے آستانہ نبوت پرحاضر ہوکر اسلا م کی تعلیما ت دریا فت کیں توآپؐ نے اعمال میں پہلے نما ز اور پھر زکوٰۃ کو جگہ دی ۔
’’میں نے حضور اقدس ﷺسے تین باتوں پر بیعت کی ،نمازپڑھنا ، زکوٰۃ اداکرنا اورہر مسلمان کی خیر خواہی چاہنا۔‘‘ (بخاری )
زکوٰۃ اور معاشرتی استحکام:
اسلام کی معاشرتی زندگی دوبنیا دوں پر قائم ہے ۔ایک روحانی، دوسری مادی ۔ اسلام کا روحانی نظا م نماز سے قائم ہوتا ہے ، جو مسجد میں باجما عت اداکی جائے اور مادی نظا م زکوٰۃ وعشر سے بروئے کار آتا ہے جو اسلامی حکومت کے بیت المال میں جمع ہوکر مستحقین میں تقسیم ہو تی ہے۔ جیسے نماز کا آغاز اسلام کے ساتھ ساتھ ہوا ، اور مدینہ میں آکر تکمیل کوپہنچا،ایسے ہی زکوٰۃ یعنی مطلق صدقات و خیرات کی ترغیب ابتداء اسلام سے ہی ہوئی ۔لیکن اس کا پور ا نظام آہستہ آہستہ فتح مکہ کے بعد قائم ہوا۔ رمضان 8ھ میں فتح مکہ نے جب تمام عرب کو ایک رشتہ میں منسلک کر دیا تو اس وقت سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی ۔خذ من اموالھم صدقۃ تطھرہم و تزکیھم ۔’’اے رسولِ محترم (ﷺ)! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرو اور اس کے ذریعے ان کو پاک و صا ف کرو۔‘‘(توبہ، 13)
امیر المومنین سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے دور خلافت میں جب بعض لوگوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ۔تو جناب سیدناصدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے انکے خلاف تلوار کھینچ لی ، حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے عرض کی کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا ہے :’’ جو شخص توحید کا قائل ہو ،اسکا خون روا نہیں ،اسکا معاملہ خدا کے سپردہے۔اس پر حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے جواب دیا :’’خدا کی قسم ! جو نماز و زکوٰۃ میں فرق کرے گا ،میں اس سے قتال کروں گا ۔خدا کی قسم! اگر انہوں نے ایک رسی بھی رو کی ،جو رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں زکوٰۃ دیتے ،تو اس کے نہ دینے پر میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘
دراصل یہ ایک لطیف نکتہ ہے جو محرم اسرارِ نبوت سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے سمجھا اور امت کو سمجھایا اور اس کے سامنے سب نے اطاعت کی گردن جھکا دی ۔پھر خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ الرحمہ نے بھی اس نظام کو جماعتی سطح پر دوبارہ زندہ کیا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان کے دور میں جب نظام عشر و زکوٰۃ اپنے پورے شباب پر تھا تو ملک میں کوئی زکوٰۃ کی رقم لینے والا نہیں ملتا تھا اور یہ کوئی محض جذباتی بات نہیں ہے ،بلکہ امر واقعہ اور زندہ حقیقت ہے ۔
زکوٰۃ کے معاشی و معاشرتی فوائد:
کسی بھی مسلم معاشرے میں اگر نظام زکوٰۃ درست انداز میں کام کررہا ہو تو یہ معاشرہ نہ صرف معاشی طور پر مستحکم و مضبوط ہوگا بلکہ روحانی اور اخلاقی طور پر بھی یہ معاشرہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔ زکوٰۃ کا نظام جن مختلف طریقوں سے معاشرتی استحکام کا باعث بنتا ہے ، ان کا ایک مختصر سا ذکر ذیل میں درج ہے:
۱۔دولت کی منصفانہ تقسیم:
زکوٰۃ کا تعلق روپوں پیسوں کی ادائیگی سے نہیں بلکہ یہ ایک اسلامی نظام کی پختہ بنیاد کے لیے ضروری ہے ۔ زکوٰۃ دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بناتی ہے اور نتیجتاً پورے معاشرے پر بہت اثرانداز ہوتی ہے۔ اگر زکوٰۃ کے نظام کو مسلم معاشرے میں ایک اصول و ظابطہ بنا کر نافذ کر دیا جائے تو اس سے معاشرے میں غریب لوگوں کی مدد ، ہمدردی اور دوسرے وسائل مسلم کمیونٹی کی تعمیر و ترقی کے لیے پروئے کار لائے جا سکتے ہیں ۔
۲۔ افراد معاشرہ کے مابین محبت و اتفاق کی بنیاد:
زکوٰۃ ایک انسان کو اس کی روح کی تسکین اور اللہ سے قربت کا ذریعہ ہے اور جس کو زکوٰۃ دی جا رہی ہے اس کے دل میں اس شخص کے لیے محبت کا پیغام اور انسانیت کا آپس میں ربط سکھاتا ہے اور دوسرے کی تکلیف کا احساس سکھاتا ہے۔ یہ سب عاجزانہ ، احساس ہمدردی ہی اسلامی معاشرے کی اصل روح ہیں۔
۳۔ اشرافیہ کا تزکیہ:
کسی بھی معاشرے کے اشرافیہ اگر راہ راست پر ہوں تو وہ معاشرہ کلی طور راہ راست پر ہوتا ہے۔ فی زمانہ ہمارے ہاں معاشرتی بگاڑ کا ایک سبب ہمارے اعلیٰ طبقات یا اشرافیہ کا اخلاقی و معاشرتی بگاڑ ہے۔ حکمران اگر عوام کے مسائل سے واقف ہوں، ان کی مدد و اعانت کے لیے تیار ہوں اور ان کے لیے اپنے مال و دولت کے دروازے کھلے رکھیں تو یقینا معاشرہ جرائم اور گناہوں سے بھی پاک ہوگا اور معاشی مساوات سے بھی ہمکنار ہوگا۔ زکوٰۃ دراصل معاشرے کے اشرافیہ کو غریبوں کے مسائل سے آگاہ بھی کرتی ہے اور ان کے مال و دولت کے تزکیہ کا بھی بندوبست کرتی ہے۔
۴۔ ارتکاز دولت کا حل:
زکوٰۃ کے اخلاقی اور معاشی فائدوں کے علاوہ ایک اور فائدہ بھی ہے۔ وہ یہ کہ صاحب مال پر زکوٰۃ کا عائد کرنا ایک قسم کا جرمانہ ہے جو اس جرم کی پاداش میں کیا جاتاہے کہ صاحب مال سال بھر تک اپنی دولت کو بند رکھ کر ان فوائد سے معاشرہ کو محروم رکھتا ہے جو اس مال کو کاروبار میں لگانے سے عوام کو حاصل ہوتا ۔تمام مک او رملت کی یہ سب سے بڑی خدمت ہے کہ اس کی ہمہ جہتی ضروریات مہیا ہوتی رہیں۔ ارتکاز دولت ملک و ملت کو ان فوائد سے محروم کردیتا ہے جو صنعت و حرفت اور تجارت سے حاصل ہوتے ہیں اوراس کا انسداد اس صورت میں ہوسکتا ہے جب کہ ''سرمایہ بکار نیا وردن'' کی پاداش میں کوئی نیا جرمانہ عاید کیا جائے۔ مال فے کی تقسیم کے بارے میں قرآن حکیم نے جو حکمت بیان فرمائی ہے كَى لا يَكونَ دولَةً بَينَ الأَغنِياءِ مِنكُم. ... (سورة الحشر:۷) یعنی مبادا کہ دولت تمہارے امیروں ہی کے ہاتھوں میں گھومتی رہے،او راس کا عوام کو کوئی فائدہ نہ ہو وہ یہاں بھی عائد ہوتی ہے پس اگر صاحب مال دولت کو کام میں نہیں لاتا تو جرم کرتا ہے اور زکوٰۃ اس کی سزا ہے۔
امراء اور سرمایہ دار سانپ بن کر اس خزانہ پر قبضہ نہ جمائے رہیں۔ دولت کا چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جانے سے معاشرے کے استحکام، ترقی، خوشحالی اور معاشی صورتحال کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارتکاز دولت کی اس منفی سوچ و رویہ کا قلع قمع کرنے کے لئے زکوٰۃ، صدقات، خیرات اور تحائف جیسے جائز امور عطا فرمائے۔
خلاصہ کلام:
زکوٰۃ کا نظام ہر لحاظ سے معاشرتی استحکام اور خوش حالی کا ضامن ہے جبکہ سودی معیشت پر مبنی موجودہ سرمایہ داری نظام معاشرتی عدم مساوات اور استحصال و استیصال کے ذریعے معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اگر معیشت کو اسلام کے نظام زکوٰۃ کے ذریعے معاشرے کی کماحقہ بنیادوں پر استوار کیا جائے اور نظام زکوٰۃ کے عمل کو اوپر سے نچلی سطح تک منظم، مربوط اور مستحکم کیا جائے تو اسلام کے اس روشن اصول کے ذریعے معاشرے سے تنگدستی اور غربت کے اندھیروں کویقیناً ختم کیا جاسکتا ہے۔ نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایک سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے تو دوسرے سے اس کی مادی ضرورتوں کی کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہوجاتا ہے۔