زہر شب ویران بستر اے خدا
زہر شب ویران بستر اے خدا
کرب اک منظر بہ منظر اے خدا
میں ترے شاہیں کا شہپرؔ اے خدا
کون ہے میرے برابر اے خدا
کاش تو بھی مجھ میں آ کر دیکھتا
ڈوبتے سورج کا منظر اے خدا
دوستی اور دشمنی کے نام سے
قید ہوں کس کس کے اندر اے خدا
زیر کچھ بونے مجھے کیسے کریں
ان حقیروں کی مدد کر اے خدا
بیچ میں معصوم سا اک آدمی
ہر طرف سانپوں کے لشکر اے خدا