زہے قسمت اگر تم کو ہمارا دل پسند آیا
زہے قسمت اگر تم کو ہمارا دل پسند آیا
مگر یہ داغ کیوں کر اے مہ کامل پسند آیا
کیا ہے قتل لیکن دیکھیے جاں کب نکلتی ہے
کہ ان کو رقص بیتابانۂ بسمل پسند آیا
وہ مومن بھی ہے مانگے گا دعا صدق تناسخ کی
ترے ہاتھوں سے مرنا جس کو اے قاتل پسند آیا
نہ پوچھو کب سے میں شامل ہوا ہوں تیرہ بختوں میں
کسی کے عارض روشن کا جب سے تل پسند آیا
یہ گستاخی ہے اے محرومؔ اپنی حد سے بڑھتا ہے
کہ تا حد زمین غالب مشکل پسند آیا