زباں نے جو بھی کہا عرض حال تھوڑی ہے

زباں نے جو بھی کہا عرض حال تھوڑی ہے
تمہارے بن ہمیں جینا محال تھوڑی ہے


جو اک جہاں کو تحیر میں مبتلا کر دے
تمہارے جھوٹ میں اتنا کمال تھوڑی ہے


نہ جانے کون سی سازش رچائے رہتے ہو
مرا عروج تمہارا زوال تھوڑی ہے


ترے سوال کے بدلے دیا جواب تجھے
مرے جواب میں کوئی سوال تھوڑی ہے


نہ کوئی دیکھ کے ٹھٹکے نہ انگلیاں کاٹے
ترے وجود میں ایسا جمال تھوڑی ہے


جو راہ عشق سے گزرے امر وہ کہلائے
تو کوئی ایک ہی زندہ مثال تھوڑی ہے


عجیب بات ہے ہر شعر تم پہ صادق ہے
وگرنہ دل میں تمہارا خیال تھوڑی ہے