زباں کو حکم نگاہ کرم کو پہچانے
زباں کو حکم نگاہ کرم کو پہچانے
نگہ کا جرم غبار الم کو پہچانے
وہ ایک جام کہاں ہر کسی کی قسمت میں
وہ ایک ظرف کہ اعجاز سم کو پہچانے
متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں
جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے
وہ دل جو خاک ہوئے آج تک دھڑکتے ہیں
رہ وفا ترے معجز رقم کو پہچانے
سحر سے پہلے یہاں آفتاب ابھرے ہیں
خلوص بندگیٔ چشم نم کو پہچانے
یہ خود فریب اجالے یہ ہاتھ ہاتھ دیئے
دیئے بجھاؤ کہ انسان غم کو پہچانے
کسی خیال کا سایہ کسی امید کی دھوپ
کوئی تو آئے کہ دل کیف و کم کو پہچانے
ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک
کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے
جو ہم سفر بھی رہے ہیں شریک منزل بھی
کچھ اجنبی تو نہ تھے پھر بھی کم کو پہچانے
بہت دنوں تو ہواؤں کا ہم نے رخ دیکھا
بڑے دنوں میں متاع قلم کو پہچانے