زباں کا زاویہ لفظوں کی خو سمجھتا ہے
زباں کا زاویہ لفظوں کی خو سمجھتا ہے
میں اس کو آپ پکاروں وہ تو سمجھتا ہے
میں اس کی بزم میں بھی سرفراز رہتا ہوں
میرا نسب مری عظمت عدو سمجھتا ہے
منافقت سے عزیزوں کو زیر کرتا ہے
اور اس میں اپنی بڑی آبرو سمجھتا ہے
سخن کے حرف پہ رکھتا ہے حرف جاں کا مدار
حیا کو آنکھ کی درد سبو سمجھتا ہے
رفوگراں مرے زخم انا سے عاجز ہیں
کہ میرے خون کی تیزی رفو سمجھتا ہے