''زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے'' (ردیف .. ے)
''زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے''
وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے
وہ زخم جس کو کیا نوک آفتاب سے چاک
اسی کو سوزن مہتاب سے رفو کرتے
سواد دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
کسے امام بناتے کہاں وضو کرتے
وہ اک طلسم تھا قربت میں اس کے عمر کٹی
گلے لگا کے اسے اس کی آرزو کرتے
حلف اٹھائے ہیں مجبوریوں نے جس کے لیے
اسے بھی لوگ کسی روز قبلہ رو کرتے
جنوں کے ساتھ بھی رسمیں خرد کے ساتھ بھی قید
کسے رفیق بناتے کسے عدو کرتے
حجاب اٹھا دیے خود ہی نگار خانوں نے
ہمیں دماغ کہاں تھا کہ آرزو کرتے