ذات کا میری جو چہرہ ہوتا
ذات کا میری جو چہرہ ہوتا
میرے گھر میں نہیں شیشہ ہوتا
یہ کنواں اتنا نہ گہرا ہوتا
جو کسی نے کبھی جھانکا ہوتا
تم نے پودے کو تھا سائے میں رکھا
دھوپ میں رکھتے تو زندہ ہوتا
جو اندھیروں میں اجالے پلتے
تو اجالوں سے اندھیرا ہوتا
تو حقیقت تھا نظر آیا نہیں
خواب بن جاتا تو دیکھا ہوتا
تو جو آنسو نہ بنا ہوتا اگر
آنکھ سے میری نہ ٹپکا ہوتا
اس کے ماں باپ نہیں ہے شاید
ورنہ اس میں کہیں بچہ ہوتا
تیری محفل یہ نہ ہوتی جو نواؔ
تو کہیں کونے میں بیٹھا ہوتا