ذات کا قتل
انتونیو نے مانتیلا کی بوتل اٹھا کر اپنے گرم ماتھے کے ساتھ لگا دی۔ چاند کی کرنیں بوتل میں باقی ماندہ شراب کے قطروں میں جھلملائیں اور منعکس ہو کر اس کی کالی بھور مخمور آنکھوں میں اترتی چلی گئیں۔ ’’ویوا۔۔۔‘‘ اس کی بھرائی ہوئی آواز بل رنگ کی ہزاروں خالی نشستوں سے ٹکرا کر گونجی اور اس نے بوتل ماتھے سے دھیرے دھیرے سرکا کے اپنے منہ میں انڈیل لی۔
قرطبہ کا وسیع و عریض بل رنگ پچھلے پہر کی مدھم چاندنی میں کسی قدیم یونانی تھیٹر کے کھنڈر کی طرح اداس اور ہیبت ناک لگ رہا تھا۔ خاموشی ہر سو پر پھیلائے سو رہی تھی۔ بل رنگ کی تیسری منزل کے اوپر ایک چھجا آیا ہوا تھا اور وہاں مکمل اندھیرے کا راج تھا۔ دوسری منزل کے خدوخال بھی پوری طرح عیاں نہ تھے۔ البتہ نچلی منزل کی خالی نشستیں قطار اندر قطار چاندنی میں چمک رہی تھیں۔ انتونیو نے خالی بوتل کے سبز شیشے پر اپنے سنسناتے ہوئے لب رگڑے، پھر بے حد احتیاط سے اگلی نشست پر لٹاکر اسے انگلی سے چھو دیا۔ بوتل ایک جھولنے کی طرح جھولی اور پھر دوسری نشست پر لڑھک گئی۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین۔۔۔ انتونیو جلدی جلدی نشستوں کی ان منزلوں کو گننے لگا جنہیں لڑکھتی ہوئی بوتل اپنے مومنٹم میں تیزی سے طے کر رہی تھی۔ بائیس۔ تیئس۔۔۔ اور پھر اسی سمے بوتل کے ٹوٹنے کی آواز ایک چھناکے سے پورے بل رِنگ میں منتشر ہوگئی۔ شراب کے ایک ایک گھونٹ سے تعمیر شدہ عارضی سکون کی جو دیوار انتونیو نے پچھلے دو گھنٹوں میں اپنے سیمابی ہیجان کی بنیاد پر تعمیر کی تھی وہ ڈولنے لگی اور پھر دھڑام سے نیچے آگری۔
’’تم خوفزدہ ہو انتونیو!‘‘ ایک اندر کی آواز نے چپکے سے کہا۔ انتونیو نے بمشکل سر اٹھا کر چاروں اور دیکھا۔ پورا بل رنگ سنسان پڑا تھا۔
’’آج دوپہر انتونیو۔۔۔ آج دوپہر۔۔۔‘‘ ایک اور سرگوشی ہوئی۔ انتونیو کا اندر ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگا۔ پارے کے ایک اتھاہ سمندر میں یہ ٹکڑے چٹانوں، برفانی تودوں اور جزیروں کی مانند ابھرتے اور ڈوب جاتے۔ عظیم بل فائٹر بننے کا جزیرہ۔ آج کے دن تک پہنچنے کے لیے سالہا سال کی شب و روز کی محنت اور ذاتی خواہشات کی قربانی کی چٹانیں۔ بل فائٹر بننے کے لیے بے پناہ پیدائشی صلاحیت کا برفانی تودہ اور پھر اس پورے سمندر میں خوف اور دہشت کے سنپولیے تیرتے ہوئے۔۔۔ جن کے زہر کا نشہ آور تریاق اس نے شراب میں ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
انتونیو قرطبہ کے سان مرینو محلے میں رہائش پذیر چمڑے پر نقش و نگار بنانے والے ایک دستکار کا بیٹا تھا۔ ’’بل فائٹروں کے محلے‘‘ میں روایت کے مطابق ہر لڑکا پیدائشی طور پر بل فائٹر ہوتا ہے۔ اس کی تنگ گلیوں اور سفید مکانوں میں مونالیت، دیخو اور گوریتا جیسے اندلس کے عظیم بل فائٹروں نے پرورش پائی۔ آج ہسپانیہ اور جنوبی امریکہ کے ہر باشندے کے دل میں عیسیٰ اور مریم کے بعد انہی تین بل فائٹروں کے لیے عقیدت کے چراغ جلتے ہیں۔ انتونیو کو بھی سان مرینو میں رہنے والے تمام بچوں کی طرح پختہ یقین تھا کہ ایک روز ’’میوزے دے توروس‘‘ یعنی بل فائٹنگ کے عجائب گھر میں ایک اور ہال کی تعمیر ہوگی جس میں انتونیو کے ہاتھوں مارے جانے والے بل کی کھال لٹکے گی۔ اس کا رزق برق لباس شیشے کے شوکیس میں تہ کرکے رکھا ہوگا اور اس کا قد آدم مجسمہ ہال کے وسط میں نصب کیا جائے گا۔
انتونیو گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے باپ کی نیم تاریک ورکشاپ میں بیٹھنے کی بجائے قرطبہ کے نواحی دیہات کی جانب نکل جاتا جہاں ’’ناولڈو‘‘ نامی بل فائٹس کثرت سے ہوتی ہیں۔ ان بل فائٹوں میں نوعمر بھینسوں کے ساتھ کھیلا جاتا ہے اور حسب روایت کھیل کے اختتام پر انہیں ہلاک نہیں کیا جاتا۔ سان مرینو کے باشندے انتونیو کی بہادری کے اس روز قائل ہوئے جب ایک وحشی بل اکھاڑے کی گیلری پھلانگ کر تماشائیوں کی نشستوں پر چڑھ آیا تھا اور انتونیو نے گیلری پر رکھی کسی بل فائٹر کی تلوار اٹھا کر ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا تھا۔ اسکول سے فارغ ہوتے ہی وہ میڈرڈ چلاگیا اور پھر پورے تین برس کا ساڈی موروکے جنگل میں درختوں کے پتے سمیٹ سمیٹ کر اس نے اتنی رقم جمع کرلی کہ وہ میڈرڈ کے بل فائٹنگ سکول میں داخلہ لے سکے۔ صرف دو ہفتے پیشتر اسے پلا زا دے تو روس میڈرڈ میں پروفیشنل بل فائٹر کے خطاب سے نوازا گیا تھا اور آج پچھلے پہر قرطبہ کے اسی بل رنگ میں اس کی پہلی بل فائٹ تھی۔ قرطبہ جہاں کے رہنے والے اس کھیل کے رسیا تھے اور وہ ایک بل فائٹر کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر ہی اس کے حق میں فیصلہ دیا کرتے تھے۔
انتونیو نے جھک کر اکھاڑے کی ریت کو چھوا۔ سرد اور خشک۔۔۔ آج دوپہر اسی ریت کو اندلس کے سورج کی تمازت سے تپ جانا تھا اور بہرطور نم ہونا تھا۔۔۔ کیا اس ریت پر بل کا خون گرے گا یا انتونیو کا؟ وہ آہستہ آہستہ چلتا سرخ پھاٹک کے پاس آگیا جس میں سے آج دوپہر ایک ایسے سیاہ جانور کو برآمد ہونا تھا جو اسے یا تو شہر کی بلندیوں سے ہمکنار کردے گا یا پھر عمر بھر کے لیے اس کوٹھری کو مقدر بنادے گا جس میں کئی صدیوں سے اس کے آباؤ اجداد چمڑے پر نقوش بنا کر اپنا پیٹ پالتے تھے۔ انتونیو نے جھک کر اپنے ہونٹ تازہ روغن شدہ سرخ پھاٹک پر چسپاں کردیے۔
بل رنگ میں ہو کا عالم تھا۔
بوڑھے کارلوس نے اپنا رعشہ زدہ ہاتھ سرخ پھاٹک پر رکھا اور پھر اسے پوری قوت سے دھکیل کر خود گیلری کے ساتھ چپک گیا۔ چمکتی سیاہ کھال کا ایک خوفناک حجم برق رفتاری سے اکھاڑے میں داخل ہوا۔ گیلری کے ساتھ ساتھ ایک چکر لگانے کے بعد ریت میں اپنے سُم گاڑے اور پھر سر اٹھا کر ان لاتعداد خاموش لوگوں کی جانب دیکھا جو قرطبہ کے بل رنگ میں اس کی آمد کے منتظر تھے۔ اس کے ساتھ ہزاروں تماشائیوں کے ہاتھ بلند ہوئے اور تالیوں اور نعروں کا شور بل رنگ کی فضا سے امڈ کر پورے شہر پر چھا گیا۔ انتونیو کا بوڑھا باپ اپنی ورکشاپ کے ایک کونے میں چمڑے پر کندہ مریم کی شبیہ کے آگے جھک گیا، ’’مقدس مریم انتونیو کی لاج رکھیو۔‘‘
انتونیو سنہری بروکیڈ کی جیکٹ، چمکیلے نگوں اور گوٹے کنارے سے مزین پتلون اور چمڑے کے بوٹوں میں ملبوس گیلری پر ہاتھ رکھے بل پر نظریں جمائے کھڑا تھا۔ اس کے معاونین بل رنگ میں داخل ہو کر بل کی شوخی اور تیزی کو دھیما کرنے کی خاطر اس سے چھیڑ چھاڑ میں مصروف تھے۔ نیند کی کمی کے باعث اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ وہ پچھلی شب بل رنگ سے سیدھا گھر لوٹنے کی بجائے پلازاڈی کا پوچینو کے درمیان نصب عیسی کے مجسمے کے قدموں میں بیٹھا موم بتیاں جلاتا رہا اور پھر وہیں سوگیا۔ بیدار ہونے پر پہلی آواز جو اس کے کانوں سے ٹکرائی وہ مسجد قرطبہ کے مینار پر نصب شدہ گھڑیال کی تھی۔ شاید اسے یاد دلانے کے لیے کہ بل فائٹنگ کا کھیل موروں کی اختراع تھا۔
’’اگر موروں کے خدا سے بھی صلح رکھی جائے تو کیا حرج ہے؟‘‘ انتونیو نے راسخ العقیدہ عیسائی ہونے کے باوجود سوچا اور باب التوبہ کے راستے مسجد کے اندر چلا گیا۔ لمبی قباؤں اور دبیز پگڑیوں والے مور اپنے خدا کی پرستش کس طرح کرتے تھے اس کے بارے میں وہ لا علم تھا۔ اس نے محراب پر لکھی ہوئی عربی عبارت پر بڑے احترام سے اپنا ہاتھ رکھا اور پھر جلدی سے اپنے سینے پر صلیب کا نشان بنا کر باہر آگیا۔
اس نے بل رنگ میں بیٹھے ہزاروں تماشائیوں کی جانب دیکھا جو اس کا فن دیکھنے کے منتظر تھے اور پھر اس کی نگاہ ایک علیحدہ کیبن میں بیٹھے پادرو کے سنجیدہ چہرے پر ٹھہر گئی۔ پادرو قرطبہ کے مشہور رومی ادیب اور فلاسفر سنیکا سے بے حد مشابہت رکھتا تھا۔ گٹھا ہوا کسرتی جسم جس کے کندھوں پر ایک غیر معمولی طور پر بڑا اور گنجا سر کچھ یوں نصب تھا جیسے بوقت ضرورت اسے اٹھا کر علیحدہ بھی رکھا جا سکتا ہو۔ پادرو اپنے زمانے میں ایک معروف بل فائٹر تھا۔ مگر کھیل کی سائنسی تکنیک پر مکمل عبور ہونے کے باوجود اس کی شہرت قرطبہ کی فصیلوں تک ہی محدود رہی۔ اس کے کھیل میں ایک درسی مظاہرے کی سی کیفیت ملتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی شہرت شہر کی فصیلوں سے سمٹ کر ایک مقامی قہوہ خانے ’’بارمسکیتا‘‘ کے ایک کونے تک محدود ہو کر رہ گئی جہاں اس کے چند وفادار مداح راکھ کے اس ڈھیر میں سے چنگاریاں حاصل کرنے کی سعی لا حاصل میں محو رہتے۔
دو برس پیشتر اس کا ایک دیرینہ مداح میڈرڈ کے با اثر اخبار ’’اسپانا‘‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوا تو اس نے اپنے رسوخ سے پادرو کو بل فائٹنگ کا ہفتہ وار کالم دلوا دیا۔ بل فائٹنگ کے حلقوں میں کہا جاتا تھا کہ بل فائٹر کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اس کا پالا کسی ناراض بل سے پڑے اور اس کا سامنا مسکراتے ہوئے پادرو سے ہو۔ کیونکہ پادرو کے ہفتہ وار کالم میں کسی بھی بل فائٹر کی مدح میں ایک سطر اسے پلک جھپکتے میں بل فائٹنگ کے بیسیوں کنٹریکٹ دلوا سکتی تھی اور تنقید کا ایک لفظ بھی اس کی پیشہ ورانہ زندگی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا تھا۔
انتونیو نے پادرو کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا مگر وہ ایک درجہ دوم کے گوتم بدھ کی مانند پتھر بنا بیٹھا رہا۔ اس نے پادرو کے ناراض چہرے سے نظریں ہٹا کر اس سے کہیں زیادہ ناراض بل کی چمکیلی تھوتھنی پر جمادیں اور اس کی حرکات کا جائزہ لینے لگا۔ بل دائیں سینگ کو ایک خاص زاویے سے جھکا کر حملہ آور ہوتا تھا۔ گردن قدرے ٹیڑھی کر کے دیکھتا تھا اور اس کی بائیں آنکھ نسبتاً زیادہ چمکیلی تھی۔ اتنے میں بگل بجا اور معاونین اکھاڑے سے باہر چلے گئے۔ انتونیو نے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔ سمندر میں تیرتے ہوئے خوف کے سنپولیوں کو ڈبونے کی کوشش میں تھوک نگلا اور سرخ کپڑا ہاتھ میں پکڑ کر تالیوں کی گونج میں اکھاڑے میں اتر آیا۔
’’ہے ہے۔۔۔‘‘ انتونیو نے رندھے ہوئے گلے سے اسے پکارا۔ بل پیچھے مڑا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی چمکیلی آنکھیں انتونیو کے شوخ اور بھڑکیلے لباس پر جمی تھیں۔ چوڑا ماتھا، سر اور سم چھوٹے، موٹی گردن، سینگ آگے کو مڑے ہوئے۔ ایک بہترین نسل کا طاقتور اور مغرور بل۔۔۔ انتونیو اپنے آگے سرخ کپڑا کچھ یوں تانے کھڑا تھا جیسے وہ اس کے پیچھے بالکل برہنہ کھڑا ہو۔ ایک مرتبہ پھر آہستہ سے ’’ہو۔ ہوئے تورو۔‘‘ بل نے سرخ دیوار پر نظریں جمائیں اور ایک دم حملہ کر دیا۔ جونہی بل کے سینگ کپڑے کو چھوئے، انتونیو انتہائی خوبصورتی اور پھرتی سے پنجوں پر گھوم گیا اور بل اپنی طاقت کے زور میں بھاگتا ہوا خاصا دور نکل گیا۔ بے پناہ تالیوں کی ایک باڑ، بل رنگ کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔
’’ہوہو۔۔۔ آؤ۔۔۔ آجاؤ۔‘‘ انتونیو پنجوں پر کھڑا گردن گھما کر اپنے پیچھے کھڑے بل کو پھر حملےکی دعوت دینے لگا۔ بل نے اپنے سُم ریت میں رگڑے اور اس مرتبہ اپنے حریف کو ہلاک کر دینے کی نیت سے نہایت نپے تلے انداز میں دوڑتا ہوا آیا۔ انتونیو نے بل کے قریب آنے سے لمحہ بھر پہلے ہی سرخ کپڑا پھریرے کی صورت میں ہوا میں لہرا دیا اور بل کے سینگ اس کی بروکیڈ کی جیکٹ کو رگڑتے ہوئے گزر گئے۔ ’درونیکا پاس‘ کے یہ دو مظاہرے اگرچہ بہترین کلاسیکی انداز کے حامل تھے مگر ان میں بل فائٹر کی ذات کا اظہار کچھ یوں رَس بس گیا تھا کہ انہیں ’’انتونیو درونیکا‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ تالیوں اور سیٹیوں کے متواتر شور میں انتونیو بل سے کھیلتا رہا۔ اب اس کے اندر ایک پرسکون سمندر تھا جس میں صرف بے خوفی اور عظمت کی چٹانیں کھڑی تھیں۔ خوف اور ناکامی کے سنپولیے ان سے ٹکرا کر ہلاک ہو چکے تھے۔
بُل فائٹ کی دوسری باری میں گھڑ سوار پکا ڈور اکھاڑے میں آیا اور بُل کو دھیما کرنے کے لیے اپنے برچھے سے اس کی گردن کو لہولہان کردیا۔ بل کی گردن میں کمال ہنرمندی سے باندریلو یعنی چھوٹی برچھیاں پیوست کرنے کے بعد انتونیوں مولیتا میں لپٹی ہوئی تلوار بغل میں دابے صدر کی کیبن کے آگے جھک گیا اور بُل کو قتل کرنے کی اجازت چاہی۔ صدر نے جواب میں سرخ رومال ہلا دیا۔
بُل کی شوخی، تندی و تیزی گئے وقتوں کا خواب تھی۔ اس کی گردن میں چبھی ہوئی چھ برچھیوں کی اذیت اُسے بے چین کیے دیتی تھی اور اس کا خون رس رس کر اکھاڑے کی ریت میں جذب ہو رہا تھا۔ انتونیو نے اپنی سنہری ٹوپی سر سے اتار کر اکھاڑے میں پٹخ دی، مولیتا میں سے تلوار نکال کر اسے چوما۔ ’’ہے تورو۔‘‘ اس نے سرگوشی کی۔ بل نے بمشکل سر اٹھایا۔ قرطبہ کی تپتی دوپہر میں تلوار کی نوک ہیرے کی کنی کی طرح چمکتی دھیرے دھیرے اس کے ماتھے کے قریب آرہی تھی۔ شاید بُل اس وقت اپنے ماتھے میں ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کوئی آہستہ آہستہ اپنی انگلی آپ کے ماتھے کی جانب بڑھائے تو اس میں ایک نامعلوم قسم کی جلن ہونے لگتی ہے۔ بُل نے سر جھٹکا اور پوری قوت سے انتونیو پر حملہ کر دیا۔
انتونیو ایک چٹان کی مانند ساکت ہوگیا اور جوں ہی بُل اس کے نزدیک پہنچا، اس نے تلوار اس کی گردن اور کولھوں کے درمیان گھونپ دی۔ انتونیو کی بند مٹھی اور تلوار کا دستہ بُل کی چمکتی کھال پر تیرتے پسینے سے مس ہوئے۔ بُل کی چمکیلی آنکھیں بجھنے سے قبل حیرت سے پھیل گئیں جیسے کہہ رہی ہوں ہم تو صرف کھیل رہے تھے، یہ تم نے کیا کیا؟ پھر اس کی ٹانگیں یوں لرزیں جیسے کسی نے ان میں سے ہڈیاں کھینچ ڈالی ہوں اور وہ کپکپا کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ مریم کی شبیہ کے آگے جھکے انتونیو کے باپ کے کانوں میں بُل رنگ سے ابلتا ہوا تالیوں کا شور ایک دل آویز دلھن کی صورت میں اُترا اور وہ سجدہ ریز ہوگیا۔ بلاشبہ آج قرطبہ کے بُل رنگ کی ریت پر ایک ایسے بُل فائٹر کے قدم جمے ہوئے تھے جو عظیم مونالیت سے کسی طور کم نہ تھا۔
سان مرینوکے محلے میں پروردہ تین عظیم بُل فائٹروں کے ساتھ اب انتونیو بھی کندھے ملائے کھڑا تھا۔ تماشائیوں کے ہاتھ جب تالیاں پیٹ پیٹ کر دکھنے لگے اور ان کے گلے رندھ گئے تو انہوں نےاکھاڑے پر دھاوا بول دیا اور انتونیو کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ انتونیوں نے اپنی آنکھوں میں آئی ہوئی نمی پونچھے بغیر بڑے فخر سے پادرو کی کیبن کی جانب دیکھا۔ پادرو جا چکا تھا۔ اس رات قرطبہ کے گلی کوچوں میں لالٹینوں کی ناکافی روشنی تلے انتونیو کی شجاعت کی داستانیں سنائی جا رہی تھیں۔ اس کے خوبصورت فن کی داد دی جا رہی تھی۔ چوکوں کے وسط میں فواروں کی منڈیوں پر بیٹھے لوگ اس کا تذکرہ کر رہے تھے اور شہر کے تمام قہوہ خانوں میں ایک ہی موضوع تھا۔۔۔ انتونیو!
مسجد قرطبہ کی دیوار کے سامنے ’’بارمسکیتا‘‘ میں انتونیو دوستوں اور مداحوں کے ہجوم میں گھرا اپنے تاثرات بیان کر رہا تھا۔۔۔ شراب خانے کے مالک نے کاؤنٹر کے پیچھے دیوار پر انتونیو کی تصویر مونالیت کے خاکے کے ساتھ آویزاں کردی تھی۔ ’’میوزے دے توروس کے اس ہال کے نام جو اب ہمارے انتونیو کے لیے تعمیر ہوگا۔‘‘ مالک نے شیمپئن کی ایک بوتل کا کارک اڑاتے ہوئے جوش میں آکر کہا، ’’وِیوا۔‘‘ سب نے مل کر نعرہ لگایا اور اپنے گلاس خالی کر دیے۔
’’گراسیاسنیور‘‘ انتونیو نے جذبات سے رندھی ہوئی آواز میں شکریہ ادا کیا اور پھر اس کی نظریں قہوہ خانے کے اس کونے پر ٹھہر گئیں جہاں پادرو اس ہنگامے سے لاتعلق سر جھکائے برانڈی پی رہا تھا۔ ’’انکل پادرو! میں آپ کی رائے جاننے کے لیے بے چین ہوں۔‘‘ انتونیو اپنا گلاس اٹھا کر پادرو کے پاس چلا آیا۔
’’میں اپنی رائے کا اظہار صرف ’اسپانا‘ کے کالم میں کرتا ہوں۔ پرسوں پڑھ لینا۔‘‘ پادرو نے سرد مہری سے جواب دیا اور پھر سر جھکا کر برانڈی پینے میں مشغول ہو گیا۔ چمبیلی اور نارنگیوں کی ملی جلی خوشبو سمیٹے خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا کھلی کھڑکی میں سے آیا اور انتونیو نے آنکھیں کھول دیں۔ ہرطرف روشنی تھی۔ چندھیا دینے والی روشنی۔ اس کے بدن کا رواں رواں دکھ رہا تھا۔ سوجی ہوئی سرخ آنکھوں میں روشنی کی کرنیں کسی پکا ڈور کی برچھی کی طرح چبھ رہی تھیں۔ یہ پچھلے دوروز کی دعوتوں میں کثرتِ شراب نوشی کے آثار تھے۔ وہ ماتھے پر ہتھیلی جمائے بمشکل بستر سے اٹھا اور نیچے پاتیو میں آگیا جہاں خوبصورت آہنی جنگلے میں آج کا ’’اسپانا‘‘ اٹکا ہوا تھا۔ انتونیو نے فوراً اخبار اٹھایا اور بے صبری سے صفحات الٹنے لگا۔ ’’انتونیو۔ بُل فائٹنگ کا قاتل۔‘‘ پادرو کے کالم کی سرخی تھی۔
’’ہا۔ انکل پادرو کا لطیف مزاح۔‘‘ انتونیو نے سوچا اور دھڑکتے دل سے کالم پڑھنے لگا۔ آخری سطروں تک پہنچتے پہنچتے اس کی ٹانگیں جواب دینے لگیں۔ ’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس نے بے یقینی سے سر ہلایا، ’’انکل پادرو میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘ اس خیال سے کہ شاید وہ پادرو کی ادبی زبان کو سمجھ نہیں سکا، اس نے کالم ایک مرتبہ پھر شروع سے آخر تک پڑھا، نہیں یہ ادبی مزاح بھی نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا کالم تھا جو جان بوجھ کر ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت انتونیو کو مکمل طور پر برباد کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ بقول پادرو، ’’پچھلے اتوار انتونیو نامی ایک غیر معروف بُل فائٹر نے قرطبہ کے اکھاڑے میں اپنے بچکانہ کھیل اور اس میں اپنی ذات کے اظہار کی کوشش میں بل فائٹنگ کے کھیل کا مستقبل تاریک کر دیا۔ بُل فائٹنگ کے قدیمی ورثے میں اگر سائنسی تکنیک کےساتھ ذات کا اظہار بھی شامل کر دیا جائے تو پھر اُسے بُل فائٹنگ نہیں کہا جا سکتا۔ انتونیو نے تکنیک پر ذاتی اختراع کو ترجیح دی ہے۔ بُل فائٹنگ میں اگر لگے بندھے اصولوں پر بُل فائٹر کی ذات حاوی ہو جائے تو اسے بُل رنگ کی بجائے کسی سرکس کا رخ کرنا چاہیے۔‘‘
پادرو نے ان چند سطروں سے ریاضت، شوق اور لگن کی اس عمارت کو ڈھادیا تھا جسے انتونیو نے اپنی زندگی کے بہترین برسوں کی قربانی سے تعمیر کیا تھا۔ اس نے ’’اسپانا‘‘ تہ کر کے جیب میں اڑسا اور بوجھل قدموں سے چلتا ہوا ’’بارمسکیتا‘‘ میں آگیا۔ خالی شراب خانے کے کاؤنٹر کے پیچھے مالک کی لڑکی ماریا ایک کپڑے سے گلاس چمکانے میں مصروف تھی۔ انتونیو کو دیکھتے ہی اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور کاؤنٹر پر کہنیاں ٹیک کر کہنے لگی، ’’اوہ انتونیو تم کتنے عظیم ہو!‘‘ انتونیو نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں میں نمی کی لکیر بوجھل ہونے لگی اور اس نے منہ پھیر لیا۔ اس کی پسندیدہ شراب مونتیلا کی بوتل اور گلاس میز پر رکھنے کے بعد ماریا کولھوں پر ہاتھ رکھ کر رنجیدگی سے بولی، ’’انتونیو! قرطبہ میں صرف پادرو ہی تو نہیں، ہزاروں دوسرے لوگ بھی تو ہیں جنہوں نے تمہارا کھیل دیکھا تھا اور تم۔۔۔ استد فنتاسیکو۔‘‘ اس نے جھک کر انتونیو کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ’’مقدس مریم نے چاہا تو پادرو جہنم کی آگ میں جلے گا۔‘‘
انتونیو نے بوتل کھول کر شراب گلاس میں انڈیلی اور پھر اسے ایک ہی سانس میں خالی کرکے بوتل کو منہ لگا لیا۔۔۔ بوتل میں بقیہ ماندہ شراب کے قطرے چھت سے لٹکی لالٹین کی روشنی میں جگمگائے اور اس کے دل میں اداسی تہ در تہ اترنے لگی۔ بے خوفی اور عظمت کی چٹانیں ریزہ ریزہ ہو چکی تھیں۔ خوف اور ناکامی کے ادھ موئے سنپولئے پھر سر اٹھا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ شراب خانہ بھرنے لگا۔ دوسری میزوں پر بیٹھے لوگ اس کی جانب دیکھتے اور سر جوڑ کر کھسر پسر کرنے لگتے۔ پرسوں شب کے برعکس ماحول بیحد سنجیدہ تھا۔
’’ہیلو انتونیو۔‘‘ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو درجہ دوم کا گوتم بدھ مسکرا رہا تھا۔ ’’ڈان منوئل پادرو۔‘‘ انتونیو نے نہایت ادب سے جواب دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’انکل پادرو میں ہمیشہ سے آپ کی عزت کرتا چلا آیا ہوں۔۔۔ ایک بزرگ کی حیثیت سے۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ۔۔۔‘‘ اس نے جیب میں سے ’اسپانا‘ نکال کر پادروں کے سامنے پھیلا دیا۔ کہ ’’میں نے کیا قصور کیا ہے؟‘‘
’’قصور؟‘‘ پادرو کا چہرہ مسکراہٹ سے ایک دم عاری ہوگیا، ’’تم نے بل فائٹنگ کی مقدس روایت کو توڑنے کا جرم کیا ہے۔ ویرونیکا پاس دیتے وقت دائیں کی بجائے تمہاری نظریں بائیں جانب تھیں۔ تم نے پنجوں پر گھومتے ہوئے سرخ کپڑا پوری طرح نہیں سمیٹا تھا۔ تمہاری گردن کا زاویہ درست نہیں تھا۔ انتونیو بُل فائٹنگ کے فن میں بُل فائٹر کو ذات کے اظہار کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔‘‘
’’پادرو انکل!‘‘ انتونیو کی آنکھیں غصے سے ابلنے لگیں، ’’میں ایک چابی کی گڑیا نہیں ہوں جس کی حرکات سراسر میکانکی ہوتی ہیں۔ میں ایک سوچنے والا جانور ہوں۔ میری سوچ اگر مجھ سے یہ کہتی ہے کہ میں پنجوں پر گھومتے ہوئے سرخ کپڑا پوری طرح نہ سمیٹوں تو مجھے اس کا حق حاصل ہے۔ جس فن میں، میں اپنی ذات کا اظہار نہیں کر سکتا، اسے میں فن ماننے سے انکار کرتا ہوں۔ اب ہم نئے بُل فائٹر اسکول کے بچوں کی مانند سبق رٹ کر طوطوں کی طرح فر فر نہیں سنا سکتے۔ اب یہ فن یا تو ہماری ذات کے اظہار کا ذریعہ بنے گا یا ختم ہو جائے گا۔ ہم اسے نئی بنیادوں پر استوار کریں گے۔‘‘
’’اور اسی لیے تم کبھی بھی ایک نامور بُل فائٹر نہیں بن سکتے۔‘‘ پادرو کا چہرہ اب پتھر تھا۔
’’آل کوروبس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے جس نے بُل فائٹنگ کے تمام مروجہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اس پوری دنیا میں عظیم ترین بُل فائٹر مانا جاتا ہے۔‘‘
’’وہ بھانڈ۔۔۔‘‘ پادرو اگر شراب خانے سے باہر ہوتا تو یقیناً نفرت سے تھوک دیتا۔ ’’وہ فائٹر نہیں مداری ہے، جو صرف اپنی شخصیت سے لوگوں کو متاثر کر لیتا ہے۔ آج تک کسی جید نقاد نے اس کے فن کی تعریف نہیں کی۔۔۔‘‘
’’دنیا کے لاکھوں لوگ اس کے فن کی تعریف۔۔۔‘‘
’’لوگ کیا ہوتے ہیں انتونیو۔‘‘ پادرو کا بھاری جسم غصے سے کانپنے لگا، ’’فن کی قدردانی صرف وہی ماہر کر سکتے ہیں جو اس کے قاعدوں سے آگاہ ہوں۔ لوگ؟ ہونہہ اَن پڑھ دیہاتی جن کی نظریں فن کی باریکیوں کی بجائے بُل فائٹر کے شوخ لباس اور بکھرے ہوئے بالوں کو دیکھتی ہیں۔ جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ باندریلو کی برچھیاں گاڑتے وقت بُل فائٹر کو جھکنا نہیں چاہئے۔ ایک مرتبہ جب میں نے دلنسیہ کی ایک بُل فائٹ میں باندریلو گاڑیں تو۔۔۔‘‘
انتونیو بے اختیار ہنسنے لگا۔ یہ شخص ایک نڈر نقاد تو نہیں۔ یہ تو صرف ایک خوف زدہ آدمی ہے۔ ایک ماضی پرست کھوکھلا انسان جو ہر اس تبدیلی سے خائف ہے جو اس کے بڑے سر میں اٹکے ہوئے چھوٹے سے ذہن میں نہیں آتی۔ جو سہما ہوا ہے اس خیال سے کہ کہیں نوجوان نسل کی بے پناہ صلاحتیں اس کے عامیانہ ماضی کے کھنڈر کو بھی ایک چٹیل میدان میں نہ بدل ڈالیں اور اسی لیے وہ ایک بندر کی طرح اپنے ہاتھ میں آئے ہوئے استرے کو اپنی خود تعمیر کردہ عظمتوں کے دفاع کے لیے بے دریغ استعمال کرتا ہے۔۔۔ ایک قابل رحم شخص جو اگر اپنے محدود تجربے کی روشنی سےنئے بل فائٹروں کو راہ دکھاتا تو قابل عزت ٹھہرتا۔
’’پادرو۔۔۔‘‘ انتونیو نے نہایت اطمینان سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’بلاشبہ آپ نے آج سے پچیس برس پیشتر دلنسیہ میں بہترین بُل فائٹنگ کا مظاہرہ کیا ہوگا مگر وہ سمے بیت گئے۔‘‘ پادرو نے سر جھکا لیا۔ اس کی آواز میں ٹھہراؤ اور دھیماپن تھا۔
’’نہیں انتونیو! عظیم عمارتوں کی بنیاد صرف ایک مرتبہ رکھی جاتی ہے۔ اس میں بار بار ردوبدل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی شراب خانے کے دروازے میں سے تمہیں ایک ایسی چاردیواری نظر آ رہی ہے جس کے درمیان گئے وقتوں میں رومیوں کا ہیکل تھا، پھر اسے ڈھا کر گوتھوں نے اپنا مندر بنایا۔ عیسائیوں کو غلبہ حاصل ہوا تو انہوں نے اسی کی بنیادوں پر سینٹ ونسنٹ کا کلیسا تعمیر کیا۔ پھر افریقہ سے مور آگئے۔ انہوں نے یہیں انہی بنیادوں پر مسجد قرطبہ کے ستون اٹھائے۔ عیسائی واپس آئے تو اس مسجد کو کلیسا میں بدل دیا۔ بنیاد وہی رہی مگر اس پر متعدد عظیم عمارتیں اٹھتی رہیں۔‘‘
’’مگر ان تمام عمارتوں کے معماروں نے ہر محراب، ہر ستون، ہر چیپل میں اپنی ذات کا اظہار کیا۔‘‘ انتونیو جوش سے کہہ رہا تھا، ’’اگر ذات کا اظہار مقصود نہ ہوتا تو یہاں آج بھی رومیوں کا ہیکل ہی نظر آتا۔ اسی طرح ہم نہیں چاہتے کہ بُل فائٹنگ کا مقدس معبد آج سے پچاس برس پہلے کی صورت میں کھڑا نظر آئے۔ ہمارے جیسے نئے عقیدے کے لوگ چاہتے ہیں کہ اس کی جگہ پہلے سے بھی خوبصورت اور بہتر عمارت ابھرے۔ جیسے۔۔۔ جیسے بھدے سینٹ ونسنٹ کے کلیسا کی بنیادوں پر مسجد قرطبہ کے ستونوں کے جنگل اٹھے اور اپنے اندر اظہار کی خوبصورتی سمیٹ لی۔۔۔‘‘
’’تم سے بحث فضول ہے۔‘‘ پادرو اپنے بھاری بھرکم جسم کو بمشکل حرکت میں لاکر اٹھ بیٹھا، ’’لیکن جب تک میرے قلم میں طاقت ہے، میں بُل فائٹنگ کے اکھاڑے کی ریت کو تم جیسے نوآموز اور اپنی ذات میں گم بُل فائٹروں کے ناپاک قدموں سے آلودہ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ اور شراب خانے سے باہر چلا گیا۔
بُل فائٹنگ کے کالم نگار ہسپانیہ میں بے حد اثر و رسوخ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک لفظ کسی گمنام درمیانے درجے کے بل فائٹر کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے یا کسی ہنرمند نوجوان کو تباہی کے غار میں دھکیل سکتا ہے۔ کسی غیرمعروف اکھاڑے میں اگر ایک نوجوان بُل فائٹر فن کی بلندیوں کو چھو بھی لے تو کیا، ہزاروں تماشائیوں کی داد فائٹ ختم ہوتے ہی بے سود اور اس کے بعد کالم نگارکی ایک سطر اس مدح پر حاوی۔۔۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں تو کسی بُل فائٹر کے مقام کا تعین صرف کالموں سے پرکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلاحیت کا بادبانی جہاز اپنی جگہ مگر یہ جہاز تب تک شہرت کے سمندروں میں رواں نہیں ہوتا جب تک اس کے بادبانوں میں تعلقاتِ عامہ کی ہوا نہ بھری جائے۔ چنانچہ بُل فائٹنگ کا کالم نگار ایک بلیک میلر کی طرح انتہائی آرام دہ زندگی گزارتا ہے۔
حسب توقع پادرو کا کالم چھپتے ہی بُل فائٹنگ کے مرکزی اداروں نے انتونیو کے وہ تمام معاہدے منسوخ کردیے جن کے تحت اسے ملک بھر میں اپنے فن کے جوہر دکھانے تھے۔ کسی دوسرے شہر میں تو کجا انتونیو کے لیے قرطبہ کے بُل رنگ میں بھی داخلہ ناممکن ہوگیا۔ آخر پادرو اپنے کالم میں قرطبہ کے بُل رنگ کے کرتا دھرتا لوگوں کو بھی تو رگید سکتا تھا۔
دن گزرتے گئےاور انتونیو اپنے باپ کی ورکشاپ میں بیٹھا کڑھتا رہا۔ اب اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ چند لمحوں کے لیے ’’بارمسکیتا‘‘ میں ہی جاکر بیٹھ سکے۔ بالآخر مئی کا مہینہ آیا جس کے پہلے ہفتے میں سالانہ ’’فی استا‘‘ منعقد ہوتا ہے۔ رقص و موسیقی کے اس جشن کا اختتام قرطبہ کے بُل رنگ میں ہوتا ہے جہاں نوآموز قسم کے بُل فائٹر لوگوں کی تفریح طبع کی خاطر کھیل میں حصہ لیتے ہیں۔ ایک شام جو انتونیو اپنے پاتیو کی دیواروں پر ٹنگے پھولوں کے گملوں کو پانی دے رہا تھا، میونسپل کارپوریشن کے ہر کارے نے اس کے ہاتھ میں جشن کے آخری روز کی بُل فائٹ میں شامل ہونے کا دعوت نامہ تھما دیا۔ یہ کارستانی یقیناً کسی ایسے کلرک کی تھی جس کے مخمور ذہن سے دعوت نامے جاری کرتے وقت پادرو کا کالم اتر گیا تھا۔
بُل رنگ کے درمیان میں ایک بونا مسخرہ سرخ کپڑے پہنے ایک مریل سے بل کے آگے قلا بازیاں لگا رہاتھا اور نشے میں چور بے فکرے تماشائیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ انتونیو گیلری پر کہنیاں ٹکائے بُل فائٹ کے روایتی لباس میں ملبوس اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ایسی بُل فائٹ میں حصہ لینا اس جیسے باکمال بُل فائٹر کے شایانِ شان نہ تھا۔ اس پرشور ہجوم میں کوئی شخص بھی بُل فائٹنگ میں دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ وہ یہاں صرف شراب نوشی کرنے، چیخنے چلانے اور گالیاں بکنے کے لیے آئے تھے۔
’’امیگو‘‘ مسخرہ اکھاڑے سے باہر آکر انتونیو کے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور اپنی تکونی ٹوپی اس کے سر پر جمادی۔ ’’اب تم لوگوں کو ہنساؤ۔‘‘ ارد گرد بیٹھے مخمور تماشائی بے تحاشا ہنسنے لگے۔ انتونیو نے انتہائی بے بسی کے عالم میں ان کی جانب دیکھا۔ پھر ترکی ٹوپی سر سے اتار کر سرخ کپڑا ہاتھ میں تھامے چپکے سے اکھاڑے میں داخل ہوگیا۔ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کسی کو ذرہ برابر پرواہ نہ تھی کہ اکھاڑے کے اندر کھڑا بُل فائٹر کون ہے؟ زندگی میں پہلی مرتبہ انتونیو تالیوں کی گونج کے بغیر بُل رنگ میں داخل ہوا تھا۔ پادرو حسب معمول اپنی مخصوص کیبن میں بت بنا بیٹھا تھا۔ اس دوران بگل بجا اور بڈھے کارلوس نے سرخ پھاٹک کھول دیا۔ انتونیو نے اپنی جیکٹ درست کی۔ تن کر کھڑا ہوا، اور پوری طرح مقابلےکے لیے تیار ہو گیا۔ سرخ پھاٹک میں سے نکلتے ہی بُل نے اکھاڑے کا ایک چکر اس شانِ بے نیازی سے لگایا جیسے اسے بُل فائٹر کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہ ہو۔ اس پر اکثر لوگ قہقہے لگانے لگے۔
’’مسخرے کی ٹوپی پہن لیتے تو بُل ضرور متوجہ ہوجاتا۔‘‘ انتونیو پر آوازے کسے گئے۔
’’ہے ہے۔۔۔‘‘ سرخ کپڑا پھیلاتے ہوئے انتونیو نے للکارا۔۔۔ بُل نے اپنی موٹی گردن گھما کر پیچھے دیکھا اور پھر گیلری کے ساتھ لگ کر یوں کھڑا ہوگیا جیسے اس کا لڑنے کا کوئی ارادہ نہ ہو۔ تماشائیوں کے تحقیر آمیز قہقہے اور سیٹیاں انتونیو کے جسم میں تیروں کی طرح پیوست ہوگئے۔ مسخرے نے پھر اپنی ٹوپی اتار کر انتونیو کے قدموں میں پھینک دی۔
’’پہن لو۔ پہن لو۔‘‘ نعرے لگنے لگے۔ انتونیو نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کپڑا تھام رکھا تھا، ورنہ وہ اپنی آنکھوں میں اتری ہوئی نمی کو پونچھتا جس میں سے بُل اسے ایک دھندلائے ہوئے خواب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا گیلری کے نزدیک آیا اور سرخ کپڑا بُل کے آگے بچھا دیا۔ بُل نے اپنی تھوتھنی کپڑے پر رکھ کر اسے سونگھا۔ انتونیو نے کپڑے کو بہت آہستہ سے اپنی جانب کھینچا۔ بُل اس پر تھوتھنی رکھے چند قدم آگے آگیا۔ پھر انتونیو بتدریج کپڑا گھسیٹتا گیا اور بُل اسے سونگھتا اس کے پیچھے پیچھے چلتا آیا۔ میدان کے درمیان میں پہنچ کر انتونیو نے سرخ کپڑا ایک جھٹکے سے اٹھا لیا۔ اپنے آگے بچھے ہوئے کپڑوں کو یوں چشم زدن میں غائب دیکھ کر بُل نے سر اٹھایا تو سامنے انتونیو کھڑا تھا۔ گیلری کے پیچھے بیٹھے ہوئے چند لوگ کھیل کی جانب متوجہ ہوگئے۔
’’ہوہے۔۔۔‘‘ بُل کے آگے سرخ کپڑا لہراتے ہوئے انتونیو نے بڑے اطمینان سے کہا۔ بُل جسے اس کی مرضی کے خلاف دھوکے سے میدان میں گھسیٹ لیا گیا تھا، ایک دم پھنکارتا ہوا حملہ آور ہو گیا۔ اس کے سینگ جب انتونیو کے سینے پر دستک دینے کو تھے تو اس نے فوراً سرخ کپڑا سمیٹ لیا۔ بُل اپنے مومنٹم میں بھاگتا ہوا دور نکل گیا۔ تماشائیوں کی اکثریت اب اُس بُل فائٹر کی جانب متوجہ ہوگئی جو ایک بزدل بل کو کمال چابکدستی سے میدان میں گھیر لایا تھا۔ بُل دوسری مرتبہ حملے کے لیے دوڑتا آیا تو انتونیو اس انداز میں گھوما کہ سرخ کپڑا ایک لبادے کی صورت میں اس کے جسم سے لپٹ گیا اور بل کا بھاری بھرکم بدن اس کے پیٹ کو چھوتا ہوانکل گیا۔ یہ دونوں انداز کلاسیکی روایات کے عین مطابق تھے اور ان میں ذاتی اظہار کا شائبہ تک نہ تھا۔ نپی تلی جامد روایت کا انداز۔ انتونیو نے جیسے تماشائیوں پر جادو پھونک دیا ہو۔ وہ خمار کی حالت سے نکل کر اپنی نشست پر اکڑوں بیٹھے بے تحاشا تالیاں پیٹ رہے تھے۔ پادرو کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
اب انتونیو خطرناک حد تک بُل کے نزدیک چلا گیا۔ بُل نے سر اٹھایا تو انتونیو نے سرخ کپڑا تان کر آہستہ سے جھٹکا۔ جونہی بل حملہ آور ہونے لگا، انتونیو نے اتنی چابکدستی سے کپڑے کو کھینچ کر گھما دیا کہ بل متذبذب ہوکر اگلی ٹانگوں پر گرتے گرتے بچا۔ کہا جاتا ہے کہ اس انداز سے بُل کو گرا لینا کلاسیکی بُل فائٹنگ کی معراج ہوتا ہے۔ تمام تماشائی نشستوں پر کھڑے تالیاں بجا بجا کر داد دے رہے تھے۔ عورتوں کے آنسو تھمنے میں نہ آرہے تھےاور وہ فرطِ مسرت سے مغلوب ہوکر بالوں میں لگے چمبیلی کے پھول اتار کر اکھاڑے میں پھینک رہی تھیں۔ مردوں نے عقیدت کا اظہار میدان میں اپنی گھڑیاں، بٹوے، رومال اور مشکیزے پھینک کر کیا۔ موسیقاروں کا طائفہ بڑے زور شور سے ’’بولیرو‘‘ کی دھن بجا رہا تھا۔
’’تم نے کلاسیکی روایت کو پھر سے زندہ کر دیا ہے میرے بیٹے۔‘‘ پادرو بھی اپنی نشست پر کھڑا چیخ رہا تھا۔
انتونیو جیسے پتھر کا ہوگیا ہو۔ تماشائیوں کے نعروں کے جواب میں ہاتھ تک نہ ہلایا۔ چپ چاپ کھڑا رہا۔ گم سم!
بل اب ایک مرتبہ پھر اکھاڑے کے مرکز سے دور گیلری کے ساتھ پشت لگائے کھڑا تھا، مگر بھاگنے کی نیت سے نہیں، بلکہ اپنی پوری قوت سے دوڑ کر حملہ آور ہونے کے لیے۔
’’ہے تو رو۔۔۔‘‘ انتونیو نے سرخ کپڑا جھٹکا، ’’آؤ میرے پاس آؤ۔‘‘
بل رنگ پر سکوت طاری ہوگیا۔ آج سے چھ ماہ پیشتر کی اس شب کی طرح جب پچھلے پہر کی مدھم چاندنی میں یہ ایک قدیم یونانی تھیٹر کا کھنڈر لگ رہا تھا۔ ہر سو خاموشی تھی۔ اس سکوت میں ایک مرتبہ پھر انتونیو کی مردانہ آواز گونجی، ’’ہے تورو۔۔۔‘‘
بل نے اپنے سے بیس گز دور ساکت کھڑے انسانی جسم کو چمکتی آنکھوں سے جانچا اور پھر اس کے پھیلائے ہوئے کپڑے کی جانب بے تحاشا دوڑنے لگا۔ انتونیو نے اپنے پیٹ کی جانب بڑھتے ہوئے نوکدار سینگوں کو دیکھا۔ جب دونوں کے درمیان صرف پانچ گز کا فاصلہ رہ گیا تو انتونیو نے ایک دم سرخ کپڑا گھما کر دور پھینک دیا اور دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرکے یوں کھڑا ہوگیا جیسے وہ بُل کو آغوش میں لے لینا چاہتا ہو۔
’’آجاؤ!‘‘ وہ زور سے چیخا، اور اسی لمحے بُل کے تیز سینگ انتونیو کی سنہری جیکٹ کو پھاڑتے اس کی چھاتی میں پیوست ہوگئے۔۔۔