ظاہر مسافروں کا ہنر ہو نہیں رہا

ظاہر مسافروں کا ہنر ہو نہیں رہا
چل بھی رہے ہیں اور سفر ہو نہیں رہا


کیا حشر ہے کہ بارش نیساں کے باوجود
پیدا کسی صدف میں گہر ہو نہیں رہا


صبح وصال کب سے نمودار ہو چکی
ناپید شام ہجر کا ڈر ہو نہیں رہا


قائل تمام شہر ترے اعتبار کا
ہونا تو چاہئے تھا مگر ہو نہیں رہا


بیٹھے ہوئے ہیں دیر سے شاطر بساط پر
مہرہ کوئی ادھر سے ادھر ہو نہیں رہا


لگتا ہے یوں قیام ہے اپنا سرائے میں
ہم جس مکان میں ہیں وہ گھر ہو نہیں رہا


مردہ ہوئے ہیں لفظ کہ پتھر سماعتیں
خامی کہیں تو ہے کہ اثر ہو نہیں رہا


گلزارؔ سب نے پیڑ کو سینچا ہے خون سے
تقسیم ہر کسی پہ ثمر ہو نہیں رہا