ضابطہ
یہ ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل
یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازوئے قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل
یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جائے
یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جائے
بیاں کروں نہ کبھی اپنے دل کی حالت کو
نہ لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت کو
کمال حسن کہوں عیب کو جہالت کو
کبھی جگاؤں نہ سوئی ہوئی عدالت کو
یہ ضابطہ ہے حقیقت کو اک فسانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے قفس کو ہی آشیانہ کہوں
یہ ضابطہ ہے کہوں دشت کو گلستاں زار
خزاں کے روپ کو لکھوں فروغ حسن بہار
ہر ایک دشمن جاں کو کہوں میں ہمدم و یار
جو کاٹتی ہے سر حق وہ چوم لوں تلوار
خطا و جرم کہوں اپنی بے گناہی کو
سحر کا نور لکھوں رات کی سیاہی کو
جو مٹنے والے ہیں ان کے لئے دوام لکھوں
ثنا یزید کی اور شمر پر سلام لکھوں
جو ڈس رہا ہے وطن کو نہ اس کا نام لکھوں
سمجھ سکیں نہ جسے لوگ وہ کلام لکھوں
دروغ گوئی کو سچائی کا پیام کہوں
جو راہزن ہے اسے رہبر عوام کہوں
مرے جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر
جو دیکھتا ہوں جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاع ہر دو جہاں بھی نہیں بہائے ضمیر
نہ دے سکے گی سہارا تمہیں کوئی تدبیر
فنا تمہارا مقدر بقا مری تقدیر