یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو

یوں وہ ظلمت سے رہا دست و گریباں یارو
اس سے لرزاں تھے بہت شب کے نگہباں یارو


اس نے ہر گام دیا حوصلۂ تازہ ہمیں
وہ نہ اک پل بھی رہا ہم سے گریزاں یارو


اس نے مانی نہ کبھی تیرگیٔ شب سے شکست
دل اندھیروں میں رہا اس کا فروزاں یارو


اس کو ہر حال میں جینے کی ادا آتی تھی
وہ نہ حالات سے ہوتا تھا پریشاں یارو


اس نے باطل سے نہ تا زیست کیا سمجھوتہ
دہر میں اس سا کہاں صاحب ایماں یارو


اس کو تھی کشمکش دیر و حرم سے نفرت
اس سا ہندو نہ کوئی اس سا مسلماں یارو


اس نے سلطانیٔ جمہور کے نغمے لکھے
روح شاہوں کی رہی اس سے پریشاں یارو


اپنے اشعار کی شمعوں سے اجالا کر کے
کر گیا شب کا سفر کتنا وہ آساں یارو


اس کے گیتوں سے زمانے کو سنواریں یارو
روح ساحرؔ کو اگر کرنا ہے شاداں یارو