یوں تو سو طرح کی مشکل سخنی آئے ہمیں

یوں تو سو طرح کی مشکل سخنی آئے ہمیں
پر وہ اک بات جو کہنی نہ ابھی آئے ہمیں


کیسے توڑیں اسے جو ٹوٹ کے ملتی ہو گلے
لاکھ چاہا کہ روایت شکنی آئے ہمیں


ہر قدم اس متبادل سے بھری دنیا میں
راس آئے تو بس اک تیری کمی آئے ہمیں


پیاس بجھ جائے زمیں سبز ہو منظر دھل جائے
کام کیا کیا نہ ان آنکھوں کی تری آئے ہمیں


دیو الفاظ کے چنگل سے چھڑانے کے لیے
آخر شب کوئی معنیٰ کی پری آئے ہمیں


پھر ہمیں قتل کرے شوق سے بن پائے اگر
اک غزل بھر تو کسی شب کوئی جی آئے ہمیں


سازؔ یہ شہر نوردی میں بکھرتا ہوا دن
سمٹے اک موڑ تو یاد اس کی گلی آئے ہمیں