یوں تری راہ میں پڑے ہوئے ہیں
یوں تری راہ میں پڑے ہوئے ہیں
جیسے درگاہ میں پڑے ہوئے ہیں
غم ہیں جتنے بھی اس زمانے کے
میری اک آہ میں پڑے ہوئے ہیں
میرے بچوں کے خواب تو فی الحال
چھوٹی تنخواہ میں پڑے ہوئے ہیں
بچ کے نکلے جو موت کے منہ سے
یاد اللہ میں پڑے ہوئے ہیں
کب کسی کی ہوئی ہے یہ دنیا
ہم عبث چاہ میں پڑے ہوئے ہیں
خاک ہونا نصیب ہے لیکن
حشمت و جاہ میں پڑے ہوئے ہیں
اک نظر ہم پہ مہوش اعظم
تیرے کنجاہ میں پڑے ہوئے ہیں
کچھ غرض ہی نہیں جسے ہم سے
اس کی پرواہ میں پڑے ہوئے ہیں
جن کو زنداں میں ہونا چاہیے تھا
حجرۂ شاہ میں پڑے ہوئے ہیں
آپ سے ہم کلام ہے عابدؔ
لوگ کیوں واہ میں پڑے ہوئے ہیں