یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے

یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
ساتھ چل موج صبا ہو جیسے


لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے


عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے


موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے


ایسے انجان بنے بیٹھے ہو
تم کو کچھ بھی نہ پتا ہو جیسے


ہچکیاں رات کو آتی ہی رہیں
تو نے پھر یاد کیا ہو جیسے


زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
ایک بے جرم سزا ہو جیسے