یوں لہکتا ہے ترے نوخیز خوابوں کا بدن

یوں لہکتا ہے ترے نوخیز خوابوں کا بدن
جیسے شبنم سے دھلے تازہ گلابوں کا بدن


مطربہ نے اس طرح چھیڑے کچھ ارمانوں کے تار
کس گیا انگڑائی لیتے ہی ربابوں کا بدن


کوئی پہناتا نہیں بے داغ لفظوں کا لباس
کب سے عریاں ہے محبت کی کتابوں کا بدن


رات ہے یا سنگ مرمر کا مقدس مقبرہ
جس کے اندر دفن ہے دو ماہتابوں کا بدن


آئینے لے کر کہاں تک ہم سرابوں کے سفیر
دھوپ کے صحراؤں میں ڈھونڈیں گے خوابوں کا بدن


جب گھلا باد صبا میں تیرے پیراہن کا لمس
اور بھی مہکا تر و تازہ گلابوں کا بدن


پریمؔ آخر صبح نو کھولے گی کب بند قبا
جھانکتا ہے چلمنوں سے آفتابوں کا بدن