یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں
یوں جو افتاد پڑے ہم پہ وہ سہہ جاتے ہیں
ہاں کبھی بات جو کہنے کی ہے کہہ جاتے ہیں
نہ چٹانوں کی صلابت ہے نہ دریا کا جلال
لوگ تنکے ہیں جو ہر موج میں بہہ جاتے ہیں
یہ نئی نسل ہے اس واسطے خالی خالی
درد جتنے ہیں وہ باتوں ہی میں بہہ جاتے ہیں
آمد آمد کسی خورشید جہاں تاب کی ہے
پیشوائی کے لیے انجم و مہ جاتے ہیں
زندگی بن گئی دیوانوں کی اک دوڑ سرورؔ
ہم سے کتنے ہیں جو اس دوڑ میں رہ جاتے ہیں