یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے
یوں ہی کب تک اوپر اوپر دیکھا جائے
گہرائی میں کیوں نہ اتر کر دیکھا جائے
تیز ہوائیں یاد دلانے آئی ہیں
نام ترا پھر ریت پہ لکھ کر دیکھا جائے
شور حریم ذات میں آخر اٹھا کیوں
اندر دیکھا جائے کہ باہر دیکھا جائے
گاتی موجیں شام ڈھلے سو جائیں گی
بعد میں ساحل پہلے سمندر دیکھا جائے
سارے پتھر میری ہی جانب اٹھتے ہیں
ان سے کب محفوظؔ مرا سر دیکھا جائے