یوں حسرتوں کی بھیڑ ہے تنہائیوں کے پاس

یوں حسرتوں کی بھیڑ ہے تنہائیوں کے پاس
جیسے محل میں داسیاں شہزادیوں کے پاس


بچے جھلس نہ جائیں جہالت کی آگ میں
رکھئے نہ اس کپاس کو چنگاریوں کے پاس


جن رہبروں کے دل میں ہر اک کا خیال تھا
وہ نورتن نہیں رہے درباریوں کے پاس


وہ سادگی وہ ناز و ادا خواب ہو گئے
بس خود نمائی رہ گئی انگڑائیوں کے پاس


دور جدید آج ترقی کی آڑ میں
سب دے چکا برائیاں آبادیوں کے پاس


تنہا سمجھ رہے ہیں اسے اس جہاں کے لوگ
لیکن ہے دل خیالوں کی گہرائیوں کے پاس