یومِ تکبیر: ملک کو معاشی طور پر ناقابل تسخیر بنانے کے عہد کا دن
وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف نے مئی کے دوسرے ہفتے جوہری دھماکوں کے 24 سال مکمل ہونے پر 10 روزہ تقریبات منانے کا اعلان کیا۔انھوں نے قیام پاکستان کے 75 سال مکمل ہونے کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کی طرز پر یوم تکبیر ملک بھر میں قومی جذبے سے منانے کی ہدایت کی۔ان تقریبات کا 19 مئی سے آغاز کیا گیا۔ آج یومِ تکبیر سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ میں جو ایام غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں ان میں سے ایک 28 مئی 1998ء کا دن ہے ۔ یہ وہ دن ہے جب جوہری ہتھیاروں کا علیٰ الاعلان تجربہ کر کے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا گیا۔ اس دن سے قبل بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات سے خطے میں جو طاقت کا توازن بگڑ گیا تھا پاکستان کے اس جرات مندانہ فیصلے سے دوبارہ معمول پر آ گیا تھا ۔ پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا تھا ۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی بقاء بلکہ خطے کا امن بھی یقینی ہو گیا تھا ۔ اس نہایت اہم دن کو یوم تکبیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
ہر سال اس روز پاکستان کے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کا تجدیدِ عہد کیا جاتا ہے اور اس عظیم کارنامے کے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے لیکن ہمیں آج خود سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہر سال محض یہ دن منا لینا کافی ہے ؟
آج جب کہ وطن عزیز اندرونی اور بیرونی سطح پر بے شمار نئے چیلنجز اور خطرات کا سامنا ہے ، ضروری ہے کہ اس دن نئے ابھرتے ہوئے محازوں پر بھی وطن عزیز کے تحفظ کا عہد کیا جائے ۔
ذیل میں چند محاذوں کا احاطہ کیا جا رہا ہے جن میں پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانا وقت کا تقاضا ہے:
معیشت کا محاذ:
معیشت کسی بھی ملک کے استحکام و مضبوطی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ ترقی کرتی معیشت مضبوط دفاع کی ضامن ہوتی ہے ۔ ڈیفنس کے شعبہ میں آگے بڑھنے کے لیے وسائل درکار ہوتے ہیں جو براہ راست ملکی معیشت کے اوپر انحصار کرتے ہیں ۔آج کل وطن عزیز تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔ ہمیں ایسے فیصلے لینا ہوں گے جو ملک کو ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑا کر دے۔ اس مقصد کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا ۔
میڈیا کا محاذ:
زمانے کے انداز بدلے گئے ہیں۔اب جنگیں اسلحے سے زیادہ معلومات کے ذریعے لڑی جاتی ہیں۔ یہ" ففتھ جنریشن وار " کا دور ہے جہاں پراپیگنڈا اور ڈس انفارمیشن کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا اس جنگ کے محاذ ہیں۔ ہمیں اس محاذ پر بھی وطن عزیز کی آئیڈیالوجی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔
دہشت گردی کا محاذ:
جدید دور کے غیر روایتی جنگ کے طریقوں میں سے ایک دہشت گردی اور پراکسی وار بھی ہے۔ بڑی طاقتیں اب اپنی جنگیں لڑنے کے لیے اپنی سرزمین کی بجائے دوسرے ملکوں کو محاذ جنگ بناتی ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ برسوں سے دوران شدید ترین دہشت گردی کا بہت بہادری اور کامیابی سے مقابلہ کیا ہے لیکن ہمیں اس محاذ پر اپنے دفاع کو اور مضبوط بنانا ہوگا۔
صحت کا محاذ:
کرونا وائرس کی وباء کے دنوں میں پوری دنیا میں اس بات کا شدید احساس سامنے آیا کہ ملکی سلامتی کے لیے جس طرح فوج اور ہتھیار ضروری ہیں اسی طرح ڈاکٹرز ، ادویات اور ہسپتال بھی بہت ضروری ہیں۔ وباء کے دنوں میں جس طرح انسانوں کی حفاظت کے لیے ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرامیڈیکل اسٹاف کے کارکنوں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آنے والے دنوں میں وطن عزیز کو اس قسم کی ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے صحت کے محاذ پر بھی نا قابل تسخیر بنانا ہوگا۔
انرجی کا محاذ:
پاکستان جیسے ایٹمی طاقت کے حامل ملک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہونا ہماری نااہلی اور غیر زمیداری کا ثبوت ہے۔ ہم نے تمام وسائل کا انتہائی بے دردی سے ان کا ضیاع کیا اور انہیں بروئے کار لانے کی بالکل کوشش نہیں کی۔ نتیجتاً ملک بجلی، گیس اور تیل کے بحران سے دوچار ہے۔ ہمیں نہ صرف ان وسائل کی حفاظت کرنا ہو گی بلکہ نئے توانائی کے ذرائع بھی تلاش کرنا ہوں گے تاکہ اس محاذ پر بھی وطن عزیز کی حفاظت کرنا ہو گی۔
تعلیم کا محاذ:
اوپر بیان کردہ تمام محاذ بلواسطہ یا بلا واسطہ اس محاذ جنگ سے جڑے ہوئے ہیں۔ ماہرین معاشیات ہوں یا صحافی ، ڈاکٹر ہوں یا جیالوجسٹ۔۔۔ سب تعلیم کے پروردہ ہیں۔ وطن عزیز میں تعلیم کے شعبے میں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ قومیں شعور کے پروں سے پرواز کرتی ہیں اور شعور تعلیم سے آتا ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ کمی ہے تو بس اس ٹیلنٹ کو پہچان کر اس کو جلا بخشنے کی۔ اکثر محاذوں پر ہماری غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ تعلیم اور تربیت کی کمی ہے۔
الغرض ۔۔۔
ساری گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یوم تکبیر کو محض نعروں اور کانفرنسوں کی حد تک منانا کافی نہیں ۔ ایٹمی دھماکے وطن عزیز کو ناقابلِ تسخیر بنانے کی طرف ایک اہم سنگِ میل حیثیت رکھتے ہیں لیکن منزل نہیں ۔۔۔ ہر محاذ پر پاک سر کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا ۔۔۔کام۔۔۔کام۔۔۔اور صرف کام!