یومِ آزادی پر اشعار کا بہترین انتخاب؛ احمد ندیم قاسمی،راغب مرادآبادی اور صہبا اختر
اس سال ہم اللہ تعالیٰ کے پے پایاں فضل و کرم اور اس کی لا متناہی رحمتوں کی بدولت اپنے اپنے جان سے پیارے پاکستان کی پچھترویں سالگرہ منانے جا رہے ہیں ۔ یہ دن محض خوشیاں منانے کا ہی نہیں ہے بلکہ اس دن ہمیں اس عہد کی بھی تجدید کرنا ہے کہ ہم اس سوہنی دھرتی کو قدم قدم آباد رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے ۔ ہمارے جذبوں کی ترجمانی شاعری میں بہت خوب ہوتی ہے ۔ آئیے تین بڑے شعراء کی شاعری سے اپنے جذبہ دل کو گرماتے ہیں ۔
احمد ندیم قاسمی:-
اردو ادب میں احمد ندیم قاسمی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ وہ ایک نامور شاعر ، افسانہ نگار ، کالم نگار اور نقاد تھے ۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا اور ندیم تخلص کرتے تھے ۔اپنے پردادا محمد قاسم کے نام کی نسبت سے خود کو قاسمی لکھتے تھے ۔ احمد ندیم قاسمی 20 نومبر1916ء کو وادی سون سکیسر ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے اور 10جولائی 2006ء (صبح) بوجہ استھما، بمقام پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ ذیل میں دی گئی ان کی وطنِ عزیز کے لیے لکھی دعائیہ نظم زبان زدِ عام ہے:
"خدا کرے کہ میری عرض پاک پر اترے "
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو
راغب مراد آبادی:-
راغب مراد آبادی کا اصل نام سید اصغر حسین تھا۔ راغب تخلص کرتے تھے اور جائے دلی میں پیدا ہونے کے باوجود مراد آباد کو اپنا آبائی وطن ہونے کے ناطے بہت عزیز رکھتے تھے اسی لیے راغب مراد آبادی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے ۔ 27 مارچ 1918 کو پیدا ہونے والے راغب مراد آبادی قیام کے بعد کراچی آگئے گئے ۔ انہوں نے 18 مارچ 2011 کو وفات پائی ۔ وطن عزیز سے محبت ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی ۔ یہاں ان کی ایک مشہور نظم ان کی حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے:
"ہم وطن یہ گلستان تیرا بھی ہے میرا بھی ہے"
ہم وطن یہ گلستان تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
قائد اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جسے
ورثہ یہ اے مہرباں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
وقت کا ہے یہ تقاضا متحد ہو جائیں ہم
کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
سوچ تو گلشن کی بربادی کا کیا ہو وے گا حال
شاخٍ گل پر آشیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
آبٍ راوی ہو کہ آبٍ سندھ ہے سب کے لئے
دامنٍ موجٍ رواں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
ہیں محبت کے نقیب اقبال و خوشحال و لطیف
ان کا فیضٍ بیکراں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے
صہبا اختر:-
صہبا اختر جن کے نام سے کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ایک سڑک بھی منسوب ہے ، 30 ستمبر 1931 کو جموں میں پیدا ہوئے ۔انہوں نے بریلی سے میٹرک کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا لیکن اس دوران قیام پاکستان کی گھڑی آ گئی اور وہ پاکستان آ گئے اور باقی زندگی کراچی میں گزاری ۔ 19 فروری 1996 آپ کا انتقال ہوا ۔ ذیل میں ان کی طویل نظم ندائیہ دی گئی ہے جو کراچی کے بدامنی کے دنوں میں لکھی گئی ۔۔۔لیکن آج پورے ملک میں ایسی فضا نظر آتی ہے ۔ یہ نظم وطن عزیز کے لیے صہبا اختر صاحب کی تڑپ اور محبت کی بھی غماز ہے ۔
"ندائیہ"
شہر قائد کے مکینو ، پوچھتے ہیں یہ عذاب
کیا یہی ہے قائد اعظم کے احساں کا جواب
ختم ہوجائے اخوت، ٹوٹ جائیں سارے خواب
زندگی بن جائے ساحلَ موت کا طوفان کا
کیا یہی مفہوم تھا ، تخلیق پاکستان کا
چار سو یہ خوف، یہ وحشت یہ فریا د و فغاں
آہ یہ دوزخ کے شعلے، یہ قیامت کا دھواں
بربریت اور یہ وحشت کا عالم الا ماں
ہم کسی بھی دور میں ، غرقِ جنوں ایسے نہ تھے
دشمنوں میں جنگ میں بھی بے سکوں ایسے نہ تھے
آتشِ نفرت نہیں ہے ، آتشِ دوزخ سے کم
دل اٹھا سکتا ہے کیسے پھول سے بچے کا غم
بات یہ اس ماں سے پوچھو ، ماں جو دیتی ہے جنم
ایک بچے کا تبسم ، دوجہاں سے کم نہیں
ایک گہوارے کی قیمت کہکشاں سے کم نہیں
کس نے چھیڑے ہیں اجل کے ساز پر وحشت کے راگ
کب تلک یوں گھر جلیں گے، کب تلک برسے گی آگ
کب تلک اجڑیں گے آخر ، ماوں بہنوں کے سہاگ
چاند چہرے ، یوں شبِ وحشت پہ وارے جائیں گے
کب تلک قبروں میں یہ سور ج اتار ے جائیں گے
وحشتیں بولیں گی کب تک ، نفرتوں کی بولیاں
کب تلک اشکوں کی بارش میں، لہو کی ہولیاں
کب تلک اتریں گی سینوں میں دہکتی گولیاں
موت کے سائے کی صورت ،زندگی کی دھوپ میں
جانور ہیں یا درندے ، آدمی کے روپ میں
آتشیں خنجر چھپے ہیں ، آستیں در آستیں
آج جو ہے آدمی کے دیدہ و دل میں مکیں
زہر اتنا تو زمانے بھر کے سانپوں میں نہیں
آدمیت نوحہ گر ، انسانیت ہے ماتمی
بھیڑیئے شرمائیں جن سے ، وہ بھی ہیں کیا آدمی
ختم ہوتی ہے کہاں خونِ بشر کی گفتگو
موت کرتی ہے تعاقب، ظالموں کا چار سو
بد دعا دیتا ہے ایسی ، بے گناہوں کا لہو
خود بھی ہوجاتا ہے اندھا َ چھین کر آنکھوں کا نور
جو جلائے گھر کسی کا ، خود بھی جلتا ہے ضرور
کیا ہے مقسوم ِ عداوت ، شب نگاہی کے سوا
کیا تعصب کا ہے حاصل ، روسیاہی کے سوا
نفرتوں سےکچھ نہیں ملتا ، تباہی کے سوا
وحشتوں کی رات کا زہراب پی سکتا نہیں
پیا ر کے سورج کا قاتل ، خود بھی جی سکتا نہیں
جو بھی جابر ہے ، وہ جابر ہے، کسی قرئیے کا ہو
جو بھی ظالم ہے ، وہ ظالم ، کسی حلقے کا ہو
جو بھی قاتل ہے ، وہ قاتل ہے ، کسی فرقے کا ہو
جو کسی مظلوم کے لاشے پہ رو سکتا نہیں
وہ رسولِ پاک ( ص) کی امت میں ہوسکتا نہیں
نفرتوں کی آگ کا ایندھن بناتے ہیں ہمیں
آؤ ان ہاتھوں کو ڈھونڈیں جو لڑاتے ہیں ہمیں
خود تو کرتے ہیں جراغاں اور بجھاتے ہیں ہمیں
کب تلک شعلہ گروں کے ہاتھ میں کھیلیں گے ہم
جرم وہ کرتے رہینگے اور سزا جھیلیں گے ہم
سر نہیں رکھتی سلامت، یہ فساد و شر کی جنگ
جیت سکتے ہیں ہمارے حوصلےَ باہر کی جنگ
ہاں مگر ہم لڑ نہیں سکتے ، کبھی اند ر کی جنگ
اپنے ہی ہاتھوں کے خنجر خاک کردینگے ہمیں
خود ہمارے گھر کے شعلے ، خاک کردینگے ہمیں
اک خدا ہے ، اک نبی ہے ، ایک ہی قرآن ہے
اک ہی کعبہ ہے ہمارا ، ایک ہی ایمان ہے
ایک ملت ہے ہماری ، ایک پاکستان ہے
اس وطن کے دشت ودر کی سب فضائیں ایک ہیں
سارے بھائی ، ساری بہنیں، ساری مائیں ایک ہیں
پیار کی کرنوں سے کردیں، چاک نفرت کے غلاف
آو ہم اک دوسرے کی ہرخطا کردیں معاف
آو پاکستان کی خاطر ، بھول جائیں اختلاف
نفرتوں کی آگ پہ چاہت کے آنسو ڈال دیں
آو ہم اس تیرگی کو روشنی میں ڈھال دیں
کیوں خزاں کی نذر کرتے ہو َ محبت کا چمن
مہرِ آزادی کو آخر، کیوں لگا تے ہو گہن
ہاں ابھی بھی وقت ہے ، یہ سوچ لو اہلِ وطن
جھیلنا ہوگی تمہیں، خود اپنی بربادی کے بعد
جانے کس کس کی غلامی ، ایک آزادی کے بعد
ہم کو یہ شعلے نہیں َ چاہت کی شبنم چاہئے
ہم کو یہ خنجر نہیں ، زخموں کا مرہم چاہئے
مستقل نفرت کے بدلے ، عشقِ پیہم چاہئے
متحد ہوکر جئیں ، تو ایک طاقت ہم بھی ہیں
گر سلامت یہ وطن ہے ، تو سلامت ہم بھی ہیں