یہ ضروری نہیں ہے جہاں دیکھنا

یہ ضروری نہیں ہے جہاں دیکھنا
وہ جدھر کو چلے بس وہاں دیکھنا


ان کی قسمت میں تھی ایسی منظر کشی
پنکھڑی سے لبوں پر دھواں دیکھنا


کوئی آتا نہیں کوئی جاتا نہیں
ایسا سنسان کوئی نشاں دیکھنا


پیڑ نے اپنے پھل کو سکھایا نہیں
دوسروں کے گھروں میں اماں دیکھنا


لے گیا جو بچھڑ کے ملا تھا ابھی
ایسے عالم میں دل کا سماں دیکھنا


عمر کہتی ہے چھوڑو برا یہ چلن
چلتے پھرتے نظر سے جواں دیکھنا


میں ترستا رہا تیرے ملنے کو یار
تو کہاں ہے ضمیرؔ اب کہاں دیکھنا