یہ سلسلۂ شام و سحر یوں ہی نہیں ہے

یہ سلسلۂ شام و سحر یوں ہی نہیں ہے
ہر قافلہ سرگرم سفر یوں ہی نہیں ہے


ہنگامے بپا کرتی ہے ہر آن تری یاد
پر شور دل و جاں کا نگر یوں ہی نہیں ہے


تاریخ سنا سکتی ہے صدیوں کے سفر کی
یہ گرد سر راہ گزر یوں ہی نہیں ہے


ابھرے گا یقیناً کوئی دم میں کوئی سورج
بیتابیٔ ارباب نظر یوں ہی نہیں ہے


منزل بھی کوئی خاص ملے گی ہمیں روحیؔ
دشوار سے دشوار سفر یوں ہی نہیں ہے