یہ شب تو کیا سحر کو بھی شاید نہیں پتا
یہ شب تو کیا سحر کو بھی شاید نہیں پتا
میں آخری چراغ ہوں سورج کے شہر کا
بزم سکوت دل میں ہے ہلچل مچی ہوئی
سارنگیاں ہیں کس کے بدن کی غزل سرا
میری بیاض درد وہ پڑھ کر بہت ہنسے
تھا نام جن کا پہلے ورق پر لکھا ہوا
دیکھا عجیب خواب اماوس کی رات نے
ہم چل رہے تھے چاند پہ دونوں برہنہ پا
شعلوں کے ہاتھ تھے کہ ٹھٹھرتے چلے گئے
پھر برف کا لباس کسی نے پہن لیا
سونے کی طشتری میں سجا کر نہ پھول بھیج
یہ کھیل مجھ غریب سے دیکھا نہ جائے گا
خوشبو کے خواب میں نہ ڈھلی زندگی مگر
چندن کی لکڑیوں سے جلانا مری چتا
کاغذ کی ناؤ آگ کے دریا میں ڈال دی
کیا جانے اور چاہتی کیا ہے تری انا
اے دوست اس قدر بھی اکیلا کوئی نہ ہو
میں خود بھی اپنے ساتھ نہیں دوسرا تو کیا
اے پریمؔ یوں تو دھوم تھی سارے جہان میں
اپنے ہی گھر میں کوئی ہمیں پوچھتا نہ تھا