یہ شاخ ہنر اپنی جو گل ریز رہی ہے

یہ شاخ ہنر اپنی جو گل ریز رہی ہے
مجروح تہ خنجر چنگیز رہی ہے


دم لو کہ ذرا قافلۂ وقت بھی آ لے
یاں گردش پیمانہ بڑی تیز رہی ہے


انسانوں کے دکھ سکھ میں برابر رہی شامل
یہ طبع جو ظاہر میں کم آمیز رہی ہے


اس غمزۂ پنہاں کی حلاوت بھی عطا ہو!
جس بن مئے عشرت بھی غم انگیز رہی ہے


صد معرکۂ نور و ضیا دل کو ہے درپیش
یہ میری خودی کتنی خود آویز رہی ہے


ہر صبح تن زار کو کچلا ہوا پایا
بس روح تپش دیدہ سحر خیز رہی ہے


پیتے رہے ہم اس کو ترے حسن کی خاطر
ساقی! یہ تری مے کہ سم آمیز رہی ہے


واں غنچے کھلے اور یہاں زخم رسے ہیں
ہر موج صبا خنجر خوں ریز رہی ہے