یہ ساس ہے کہ شیر چھپا ہے نقاب میں

یہ ساس ہے کہ شیر چھپا ہے نقاب میں
اللہ کسی کو ساس نہ دیوے شباب میں


حیراں ہوں دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
سوتی ہے وہ سنبھالتی ہوں سارے گھر کو میں


بلو کو چپ کراؤں کہ ماروں قمر کو میں
فرش زمین دھوؤں کہ مانجوں ککر کو میں


رو رو کے یاد کرتی ہوں فادر پدر کو میں
دکھتی ہے ساس ہی مجھے دیکھوں جدھر کو میں


ہر اک سے پوچھتی ہوں کہ دیکھوں کدھر کو میں
ناز و ادا سے تھام کے اپنی کمر کو میں


جب اپنا دکھ سناؤں قمر کے پدر کو میں
کہتے ہیں دیکھ آگ لگا دوں گا گھر کو میں


اچھا یہی ہے ڈھونڈ لے راحت عذاب میں
خوشیوں کا ذکر کفر ہے میری جناب میں