یہ رشتۂ جاں میری تباہی کا سبب ہے

یہ رشتۂ جاں میری تباہی کا سبب ہے
اس قید سے چھٹنے کی تمنا بھی عجب ہے


اس عرصۂ محشر میں خموشی بھی صدا ہے
ٹوٹی ہوئی قبروں میں بڑا شور و شعب ہے


سورج کو یہ ضد اس کی اک بوند نہ رہ جائے
ہونٹوں کو فقط پیاس بجھانے کی طلب ہے


چہرے پہ تھکن سانس کی زنجیر پریشاں
آنکھوں میں مگر اب بھی وہی غیظ و غضب ہے


کیوں دل کو یہ حسرت ہے کسی اور کو پالے
اس شہر میں مجھ سا کوئی پہلے تھا نہ اب ہے