یہ نہ ہو کہ منہ ہی لٹکا چاہئے
یہ نہ ہو کہ منہ ہی لٹکا چاہئے
شعر کہہ کر خود بھی ہنسنا چاہئے
ہو حکومت غنڈے اپنے ساتھ ہوں
کیوں نہ پھر غیروں کو سمجھا چاہئے
کال بیل جو بجتے ہی دیدار ہو
در سے کتا دور ان کا چاہئے
کیسے جاؤں دل بدل کر اس طرف
''کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہئے''
راس آتا ہی نہیں ہم کو سکوں
شانتی کو بھنگ کرنا چاہئے
ساٹھ کا ہونے پہ لایا ہوں دلہن
نوجوانو ڈوب مرنا چاہئے
دوسروں کی روٹیاں جو چھین لے
ایسا بندر ساتھ ہونا چاہئے
ہاتھ میں طاقت رہے اپنے سدا
دیش کا ہم کو بھلا کیا چاہئے
آرمی میں عورتیں آنے لگیں
ناپنا ان کا بھی سینہ چاہئے
دل لگی کی بات ڈھلتی عمر میں
رازؔ کی صورت تو دیکھا چاہئے