یہ مشت خاک اپنے کو جہاں چاہے تہاں لے جا

یہ مشت خاک اپنے کو جہاں چاہے تہاں لے جا
پر اس عالم کو اس عالم سے مت بار گراں لے جا


عدم سے جس طرح تنہا چلا آیا تھا پھر واں کو
مناسب ہے اسی صورت سے صورت چھوڑ جاں لے جا


کدورت ماسوا کی دھو لے خاطر خواہ خاطر سے
بجز نام خدا ہم راہ مت نام و نشاں لے جا


عزیز و اقربا نے مال و ملکیت بکار آوے
کسی کی دوستی کی اے دلا حسرت نہ واں لے جا


گدائی بادشاہی بھی مساوی وقت مرنے کے
تیقن کر سخن میری پر ہرگز مت گماں لے جا


اسی دنیا میں دنیا سے کنارہ کر جو عاقل ہے
محبت پھر کسی شے کی نہ ساتھ اے مہرباں لے جا


نہ کوئی لے گیا کچھ اور نہ لے جاوے کوئی ہرگز
یقیں گور و کفن ملنے پہ کیا تشکیک ہاں لے جا


گئی باغ جہاں سے خلق خالی ہاتھ لے پر تو
بہار زندگی سے ذکر کا گل بے خزاں لے جا


بکھیڑا یاں کا یاں پر چھوڑ افریدیؔ عدم آخر
نہ یہ درد‌ و بلا رنج و الم آہ و فغاں لے جا