یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں

یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
جو میں نے تجھ سے بچھڑ کے لکھیں
انہیں کوئی چھاپتا نہیں ہے


میں جب بھی تیرے فراق کا نوحہ لکھ کے لاؤں
سخن شناسوں کو میرا طرز عمل نہ بھائے
تری محبت کا درد ہو جس غزل میں شامل
کسی کو ایسی غزل نہ بھائے
جواب آئے
کہ جانے والوں کو یاد کرنے سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہے
میں تیری یادوں کو گوندھ کر اپنی حسرتوں میں
تراشتا ہوں اگر ترا دل نواز پیکر
وہ لوگ دیتے ہیں مجھ کو بت پرستی کا طعنہ
جڑے ہیں جن کے دلوں میں پتھر
وہی صنم گر
کریں نصیحت بتوں پہ مرنے سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہے
میں ذکر کرتا ہوں جب وصل کی رتوں کا
تو شہر کے سارے پارسا مجھ کو ٹوکتے ہیں
خلاف اخلاق جن کے نزدیک ہے محبت
وفاؤں سے مجھ کو روکتے ہیں
کچوکتے ہیں
کہ اپنی عزت پہ نام دھرنے سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہے
اگر کبھی میں جدائیوں کا سبب بتاؤں
تو میری نظموں سے خوف کھانے لگیں جریدے
سماج پر احتجاج کرنے کا حق جو مانگوں
کوئی یہ کہہ کر زبان سی دے
لکھو قصیدے
کہ خود کو یوں بے لگام کرنے سے کوئی بھی فائدہ نہیں ہے
اسی لیے تو حبیب میرے
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
جو میں نے تجھ سے بچھڑ کے لکھیں
انہیں کوئی چھاپتا نہیں ہے