یہ میرے شہر کا اک اور حادثہ ہوگا
یہ میرے شہر کا اک اور حادثہ ہوگا
وہ کل یہاں مرا مہمان بن چکا ہوگا
تلاش میں ہوں کسی کی میں کب سے سرگرداں
اسی طرح کوئی مجھ کو بھی ڈھونڈھتا ہوگا
مری طرح سے کوئی چیختا ہے راہوں میں
مری طرح کوئی دنیا کو دیکھتا ہوگا
لگا کے آئے گا چہرہ کوئی نیا شب میں
وہ جس کو بیٹھ کے دن میں تراشتا ہوگا
شناسا چہرے بھی لگنے لگے ہیں بیگانے
اب اپنا وقت ہی شاید بدل رہا ہوگا
اداس اداس سا کھویا ہوا سا رہتا ہے
کچھ اس سے بھی کوئی کہہ کر بدل گیا ہوگا
تھکا تھکا سا اسی در پہ آ کے بیٹھا تھا
نہ پوچھا ہوگا کسی نے تو چل دیا ہوگا
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے
اسی مقام سے اب اپنا راستہ ہوگا