یہ منظر دیکھ کر ساحل کی حیرانی نہیں جاتی
یہ منظر دیکھ کر ساحل کی حیرانی نہیں جاتی
مجھے چھو کر بھی کوئی موج طوفانی نہیں جاتی
پریشانی اگر ہے تو پریشانی کا حل بھی ہے
پریشاں حال رہنے سے پریشانی نہیں جاتی
یہ کیسے لوگ ہیں جو آئینہ پہچان لیتے ہیں
کہ اب ہم سے تو اپنی شکل پہچانی نہیں جاتی
بہت کنجوس ہیں آنکھیں مری آنسو بہانے میں
اگرچہ دولت غم کی فراوانی نہیں جاتی
غم دنیا سے پہلو تو مرا آباد رہتا ہے
مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی