یہ مان لینے میں ایسی بھی کیا برائی ہے

یہ مان لینے میں ایسی بھی کیا برائی ہے
سمجھ میں دیر سے اک اچھی بات آئی ہے


دیا ہے تم نے بصد زعم انتہا کا نام
جسے وہ مرحلۂ شوق ابتدائی ہے


ہیں تجھ سے بڑھ کے یہاں تیرے سارے ہم سایے
مرے خدا یہ تری کیسی کبریائی ہے


وہ جن کو کر گیا بے نور آگہی کا طلسم
کہاں ان آنکھوں کو پھر صبح راس آئی ہے


بضد ہیں وہ بھی کہ میں ان ہی کی طرح سوچوں
وہ جن سے دور کا رشتہ نہ آشنائی ہے


بتاؤں کیا اسے آشوب روزگار عاصمؔ
جو میرے واسطے وجہ غزل سرائی ہے