یہ کیا کہ چہرہ نقاب اندر نقاب رکھو
یہ کیا کہ چہرہ نقاب اندر نقاب رکھو
یہی ہے کافی بچا کے آنکھوں کی آب رکھو
کہا یہ کس نے کہ روز و شب کا حساب رکھو
بہ نام جاں کرب مستقل کا عذاب رکھو
سروں کے اوپر سے جو تمہارے گزر گئی ہے
ہمارے حصے میں دوستو وہ کتاب رکھو
رہ تمنا میں جن سے رقصاں ہوں ماہ و انجم
تم اپنی آنکھوں میں روشنی کے وہ خواب رکھو
بھٹک نہ جائے کوئی مسافر رہ طلب میں
ہر ایک نقش قدم میں تم آفتاب رکھو
افق افق آفتاب تازہ کی ضو فشانی
جو ہو سکے تو نظر نظر انقلاب رکھو
مرا تعارف ہے نام میرا کلام میرا
تمہیں مبارک تم اپنے سارے خطاب رکھو