یہ کوئی بات ہوئی مل کے جدا ہو جانا
یہ کوئی بات ہوئی مل کے جدا ہو جانا
کاش آئے تمہیں پابند وفا ہو جانا
اس تصور ہی سے دل کانپ رہا ہے میرا
میرے محبوب کا اور مجھ سے جدا ہو جانا
یہ سر عرش معلیٰ بھی پہنچ جائے تو کیا
نہیں ممکن کبھی انساں کا خدا ہو جانا
اہل محفل نے تو سمجھا تھا حقیقت اس کو
اک دکھاوا تھا ترا مجھ سے خفا ہو جانا
آرزو ہے مری تقدیر میں لکھا ہوتا
رہ گزر میں تری نقش کف پا ہو جانا
حاصل عمر رواں اس کے سوا کچھ بھی نہیں
سوزؔ اس جان تمنا پہ فدا جانا